افغان جنگ سے متعلق 90 ہزار خفیہ دستاویزات کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنےوالی انٹرنیٹ نیوز سائٹ ’ وکی لیکس‘ کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ یہ سائٹ 2007ء میں آن لائن ہوئی تھی۔
وکی لیکس کے منتظمین اپنے ادارے کے مقاصد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ لوگوں یا اداروں کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات، پوشیدہ رکھی جانے والی یا حساس دستاویزات ان کے نام پوشیدہ رکھتے ہوئے ، منظر عام پر لانے کا کام کرتے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے تیزی سے پھیلاؤ اور الیکٹرانک دستاویزات کی آسانی سے نقل ہونے کی خصوصیت کی بنا پر خفیہ معلومات شائع ہونے کے بعد دوبارہ کبھی خفیہ نہیں بن سکتیں۔
شروع میں اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والی دستاویزات محدود نوعیت کی ہوتی تھی تاہم وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرتی تھیں۔ مثلا چرچ کے معاملات یا پھر نائب صدارت کی امیدوار سارا پیلن کی ذاتی ای میلز وغیرہ۔۔لیکن ان چیزوں کی اشاعت کے علاوہ وکی لیکس کا ایک بڑا سیاسی ایجنڈا بھی ہے۔ جس کے تحت وہ شروع میں ایشیا میں سابق سوویت یونین بلاک، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے جابرانہ نظاموں کے پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا کام کرتے تھے۔مگر بعد ازاں اس کے دائرے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
وکی لیکس کوکوئی بھی امریکہ اور دوسری حکومتوں کی مختلف قسم کی حساس دستاویزات کی اشاعت سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔گوانتاناموبے کے فوجی حراستی مرکز میں قیدیوں کے ساتھ سلوک اور بغداد میں ایک متنازع امریکی ہوائی حملے کی دیڈیو اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
جیسے جیسے خفیہ دستاویزات کی فراہمی میں اضافہ ہوا، وکی لیکس نے پوشیدہ معلومات افشا کرنے والوں کی سہولت کے لیے اپنی پالیسیوں میں کئی تبدیلیاں کیں، جس میں اپنے نیٹ ورک میں ایسے رضاکاروں کی شمولیت بھی تھی جو دستاویز کی صداقت کی تصدیق اور دیگر پہلوؤں کی جانچ پرکھ کرسکیں۔
وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اس کی اکثر کارروائیاں خفیہ رکھی جاتی ہیں ۔ادارے سے منسلک اورانٹرنیٹ کے حقوق کے آسٹریلیوی سرگرم کارکن جولین اسانگے کہتے ہیں کہ وکی لیکس کے پاس دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے رضاکار موجود ہیں جو کسی بھی دستاویز کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کا کام کرتے ہیں لیکن وہ ان کے نام نہیں بتاسکتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آزادی اظہار کے حامیوں کی جانب سے وکی لیکس کو اپنی اشاعتوں پر بہت سراہا جاتا ہے لیکن دوسری جانب سے اسے سرکاری حلقوں کی نکتہ چینی اور شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
وکی لیکس کے خلاف کئی قانونی دعوے بھی دائر ہوچکے ہیں ، جن سب کا فیصلہ وکی لیکس کے حق میں ہوا۔ یہ سائٹ ہیکرز حملوں کا نشانہ بھی بنتی رہی ہے۔ ادارے سے منسلک افراد کو جرمنی، اسرائیل، کینیا اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں پولیس کے ذریعے ہراساں کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں ہیں ۔اور جولین آسانز کہتے ہیں کہ وہ اعلیٰ سطحی انٹیلی جنس سروسز کا ہدف رہ چکے ہیں۔
اس سال کے شروع میں وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں آسانز نے اپنے کام کو صحافت کا ایک حصہ قراردیا تھا۔ان کا کہناتھا کہ وکی لیکس کا مقصدعوام سے چھپائی گئی معلومات کو منظر عام پر لاکرسیاسی اصلاحات پر زور دینا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم سینسر کی پابندیوں کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ جب آپ حقائق سے آگاہ ہوں گے تو آپ کبھی غلطی نہیں کریں گے۔
افغان جنگ کے بارے میں ہزاروں خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کے بعد ان دنوں وکی لیکس کو وائٹ ہاؤس، پاکستان اور افغان حکومتوں کی جانب سے شدید تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔