لاریجانی نے کہا کہ ان مذاکرات میں تجارتی نفع و نقصان کے بجائے اعتماد سازی کے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔
واشنگٹن —
ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے درمیان آئندہ ہفتے ہونے والے مذاکرات میں فریقین کو اعتماد سازی پر توجہ دینی چاہیے۔
بدھ کو جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاریجانی کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ان فریقین کے لیے اپنے اختلافات دور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جو درحقیقت اس کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں 15 اور 16 اکتوبر کو جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کی جانب سے عالمی طاقتوں کو تنازع کے حل کی بعض تجاویز پیش کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
لاریجانی نے– جو ماضی میں جوہری معاملات پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی رہ چکے ہیں - کہا کہ ان مذاکرات میں تجارتی نفع و نقصان کے بجائے اعتماد سازی کے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ یہ مذاکرات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین - اور جرمنی کے نمائندے کر رہے ہیں۔
مغربی سفارت کار اس تاثر کی نفی کرتے آئے ہیں کہ ایران میں آنے والی حالیہ سیاسی تبدیلی اور نئی حکومت کے مذاکرات سے متعلق مثبت موقف کے باعث اس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں کوئی فوری یا نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔
پریس کانفرنس میں ایرانی پارلیمان کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے اگلے دور کے متعلق مثبت رائے رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چند وہ ممالک بھی اب تنازع کے سیاسی حل کے خواہش مند ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کو دھمکانے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں ملوث تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذاکرات میں شریک تمام ممالک کی "اجتماعی دانش" نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
جب ایران کے اعلیٰ رہنما سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے معطل تعلقات کی بحالی کے لیے کیا اقدامات چاہتا ہے، تو انہوں نے ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "امریکیوں کو مذاکرات سبوتاژ نہیں کرنے چاہئیں"۔
بدھ کو جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاریجانی کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ان فریقین کے لیے اپنے اختلافات دور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جو درحقیقت اس کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں 15 اور 16 اکتوبر کو جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کی جانب سے عالمی طاقتوں کو تنازع کے حل کی بعض تجاویز پیش کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
لاریجانی نے– جو ماضی میں جوہری معاملات پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی رہ چکے ہیں - کہا کہ ان مذاکرات میں تجارتی نفع و نقصان کے بجائے اعتماد سازی کے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ یہ مذاکرات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین - اور جرمنی کے نمائندے کر رہے ہیں۔
مغربی سفارت کار اس تاثر کی نفی کرتے آئے ہیں کہ ایران میں آنے والی حالیہ سیاسی تبدیلی اور نئی حکومت کے مذاکرات سے متعلق مثبت موقف کے باعث اس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں کوئی فوری یا نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔
پریس کانفرنس میں ایرانی پارلیمان کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے اگلے دور کے متعلق مثبت رائے رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چند وہ ممالک بھی اب تنازع کے سیاسی حل کے خواہش مند ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کو دھمکانے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں ملوث تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذاکرات میں شریک تمام ممالک کی "اجتماعی دانش" نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
جب ایران کے اعلیٰ رہنما سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے معطل تعلقات کی بحالی کے لیے کیا اقدامات چاہتا ہے، تو انہوں نے ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "امریکیوں کو مذاکرات سبوتاژ نہیں کرنے چاہئیں"۔