ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ فوجی تصادم کے امکان کو رد نہیں کر سکتے۔ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کے اندر سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔
سرکاری ٹی وی پر جاری بیان میں ایران کے صدر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران عراق جنگ سے بھی ابتر ہیں۔
امریکہ نے حال ہی میں ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں ایران سے تیل درآمد کرنے والے ممالک کا استثنی ختم کرنا بھی شامل ہے۔ امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ساتھ فوجی دباؤ بھی بڑھا رہا ہے۔
حال ہی میں لڑاکا طیاروں سے لیس امریکی جنگی بیڑا مشرق وسطی پہنچا ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے مشرق وسطی میں 'پیٹریاٹ میزائلوں' کی تنصیب کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ ایران خطے کے دیگر ممالک کے لئے جارحانہ عزائم رکھتا ہے جسے روکنا ضروری ہے۔
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران عراق جنگ کے دوران ہمارے بینک کام کر رہے تھے، بیرونی ممالک سے تجارت بھی جاری تھی جبکہ تیل کی برآمد پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ صرف اسلحے کی خریداری پر پابندی عائد تھی تاہم اب حالات قدرے مختلف ہیں۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ دُشمن کی طرف سے لاحق خطرات کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تاہم ہمیں یقین ہے کہ اندرونی اتفاق رائے سے ہم ان خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر ایران، امریکہ کشیدگی جاری رہی تو ایران اسرائیل پر حملہ کر سکتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر توانائی نے رائٹرز کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ اگر امریکہ نے ایران پر مزید دباؤ بڑھایا تو ایران غزہ میں حزب اللہ اور اسلامک جہاد کو اسرائیل کے خلاف متحرک کرے گا۔
ایران کے صدر حسن روحانی کو 2015 میں امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر اندرون ملک شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ سال اس معاہدے سے الگ ہونے پر اس تنقید میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر ایرانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ ایران کے قدامت پسند طبقے کی جانب سے صدر روحانی کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکہ نے رواں ماہ کے آغاز میں ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کو ایرانی تیل کی درآمد سے روک دیا تھا۔ ان ممالک میں چین، بھارت، اٹلی، یونان، تائیوان، جنوبی کوریا اور ترکی بھی شامل تھے۔ ایران کا موقف ہے کہ یہ ممالک امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔
ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس پر عائد پابندیاں نہ ہٹائی گئیں تو وہ اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھاتے ہوئے یورینیم کی افزودگی بھی شروع کر دے گا۔