یورپی یونین کی جانب سے یہ کہے جانے کےبعد کہ اب وقت گیا ہے کہ تہران اور واشنگٹن وہ سیاسی فیصلے خود کریں جن کی کسی معاہدے تک پہنچنے کےلیے ضرورت ہے، ایران کے صدر ابراہیم ریئسی نے کہا ہے کہ ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری بات چیت کے لیے جو شرائط رکھی ہیں وہ ان سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹر زنے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2015ء کے اس جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے گیارہ ماہ سے جاری مذاکرات اب اپنے آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں، جس کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو روک دینے کے عوض اس پر عائد تعزیرات کو اٹھا لیا گیا تھا۔
ایران چاہتا ہے کہ اس پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں اور وہ امریکہ سے اس بات کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اسی طرح معاہدے سے الگ نہیں ہو گا، جس طرح 2018ء میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ معاہدے سے الگ ہو گئے تھے اور پھر سے ایران پر تعزیرات لگا دی گئی تھیں۔
ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار، علی باغیری کانی حکومت سے صلاح و مشورے کےلیے پیر کے روز تہران واپس آئے۔
صدر ریئسی نے آیت اللہ علی خامنائی کا حوالہ دیتے ہوئے، جن کو سرکاری امور میں آخری فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے، کہا ہے کہ ملک کے رہبر اعلیٰ نے جو اصول اور فریم ورک معین کر دیا ہے، حکومت ان ہی کی مطابق جوہری مذاکرات کر رہی ہے۔ نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے ریئسی کا بیان نقل کیا ہے کہ ان اصولوں اور اس سرخ لکیر سے نہ پیچھے ہٹے ہیں، نہ ہٹیں گے۔
SEE ALSO: ایران کا یورینیم کا ذخیرہ 2015 کے معاہدے سے بڑھ چکا ہے، بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسیبات چیت کےلیے یورپی یونین کےرابطہ کار انریک مورا نے کہا ہے کہ مذاکرات کو کامیابی سے مکمل کرنے کے واسطے آئندہ چند روز میں سیاسی فیصلے ہونا ضروری ہیں۔
سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ بات چیت میں ابھی کئی اختلافی امور طے ہونا باقی ہیں جو آخری لمحوں میں روس کے اس مطالبے سے بھی متاثر ہوئے ہیں کہ امریکہ اس بات کی ضمانت دے کہ ایران سے روسی تجارت، سرمایہ کاری اور فوجی تیکنیکی تعاون میں ان تعزیرات کے سبب کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہو گی جو یوکرین پر حملے کی پاداش میں اس پر لگائی گئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے ایسٹونیا کے دورے میں یہ کہتے ہوئے اس مسئلے کو اہمیت نہیں دی کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے میں خود روس کا اپنا بھی مفاد وابستہ ہے۔
بلنکن نے مزید کہا کہ ہم یہ دیکھنے کےلیے کہ ایران کے ساتھ معاہدے پرباہمی طور سے عمل درآمد کر سکیں، کام کرنا جاری رکھیں گے اور روس ان کوششوں میں ملوث رہنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اور اس بات کو یقینی بنانے میں اس کا اپنا مفاد ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے پائے۔بات چیت میں شامل فریقین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ معاہدہ بس چند دنوں میں متوقع ہے۔
فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے مذاکرات کنندگان یہ باور کرتے ہوئے عارضی طور پر پہلے ہی چلے گئے تھے کہ جو کچھ وہ کر سکتے تھے وہ انہوں نے کر لیا اور اب یہ دو بڑے فریقوں کا کام ہے کہ وہ بقیہ مسائل طے کریں، جن میں یہ مسئلہ بھی شامل ہو کہ کس حد تک ایران پر سے پابندیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔
ادھر ایران کے پاسداران انقلاب نے جن پر امریکہ کی تعزیرات عائد ہیں، ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، دوسرا فوجی سیٹیلائٹ کامیابی کے ساتھ مدار میں پہنچا دیا ہے، جو ایرانی فوج کی ایک اور کامیابی ہے۔
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا)