عراق میں سنی العقیدہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد 'العراقیہ' کے سربراہ نے ملک میں فرقہ وارانہ جنگ سے بچنے کے لیے نئے وزیرِاعظم کے انتخاب یا نئے انتخابات کے انعقاد کو ضروری قرار دیا ہے۔
بدھ کو اتحاد کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایاد علاوی نے ملک کے حالیہ سیاسی بحران کی ذمہ داری وزیرِاعظم نوری المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ جماعتوں کی حکومت پر عائد کی۔ علاوی کا کہنا تھا کہ المالکی حکومت جان بوجھ کر ملک میں سیاسی کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ شیعہ اکثریتی جماعتوں کے اتحاد'نیشنل الائنس' کے ساتھ ساتھ 'العراقیہ' بھی 2010ء کے اختتام پر تشکیل پانے والی عراق کی قومی حکومت میں شامل ہے تاہم سنی اتحاد کے رہنما گزشتہ ماہ سے پارلیمان اور کابینہ کے اجلاسوں کے بائیکاٹ پر ہیں۔
'العراقیہ' کے راہنماؤں کا الزام ہے کہ وزیرِاعظم المالکی اقتدار کو شیعہ راہنماؤں تک محدود رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس پر وہ بطورِ احتجاج پارلیمان اور کابینہ کا بائکیاٹ کیے ہوئے ہیں۔
سنی و شیعہ راہنماؤں کے درمیان جاری اقتدار کی اس رسہ کشی سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا ملی ہے۔ بدھ کو اپنے خطاب میں علاوی نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ماہرین (ٹیکنوکریٹس) کی حکومت کی نگرانی میں پارلیمانی انتخابات کے قبل از وقت انعقاد سمیت کئی تجاویز پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بحران کے خاتمے کا ایک راستہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ 'نیشنل الائنس' نوری المالکی کی جگہ وزیرِاعظم کے عہدے کے لیے کسی ایسے فرد کو نامزد کرے جو فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر ہو۔
'العراقیہ' کے رہنما وزیرِاعظم المالکی کی جانب سے اتحاد کے ایک رہنما اور ملک کے سنی العقیدہ نائب صدر طارق الہاشمی کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے پہ بھی برانگیختہ ہیں۔
وزیرِاعظم نے گزشتہ ماہ نائب صدر پر قاتلوں کا گروہ منظم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے۔ الہاشمی خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہیں اور گرفتاری سے بچنے کے لیے شمالی عراق کے کرد اکثریتی خودمختار علاقے میں مقیم ہیں۔