ایک ایسے علاقے میں جہاں بہت سے بحرانوں نے سر اٹھایا ہوا ہے اور عدم استحکام میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، عراق میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہوا ہے ۔ ملک کے شیعہ وزیرِ اعظم نوری المالکی اپنی سنّی نائب صدر کو گرفتار کرنے اور سنّی نائب وزیرِ اعظم کو بر طرف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے حریف سنّی ، شیعہ اور کردش لیڈروں نے ان اقدامات پر بار بار انتباہ کیا ہے ۔ عراقیہ پارٹی کو عراق کے سنّیوں کی حمایت حاصل ہے ۔ اس پارٹی کے لیڈرایاد علاوی نے مطالبہ کیا ہے کہ مسٹر مالکی کی جگہ کسی دوسرے شخص کو وزیرِ اعظم بنایا جائے ۔
’’ملک میں جمہوریت کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ جمہوری عمل کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں ۔ ہمیں کوئی ایسا شخص چاہیئے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کر سکے، جو اگلے انتخابات تک ملک کا انتظام سنبھال سکے ۔ ہم یہ تجویز پیش کریں گے کہ نیشنل الائنس کو مسٹر مالکی کی جگہ کوئی اور شخص تلاش کرنا چاہیئے۔‘‘
نائب صدر طارق الہاشمی فرار ہو کر شمالی عراق میں کردستان کے خود مختار علاقے میں پہنچ گئے ہیں جہاں علاقائی صدر مسعود برزانی نے انہیں پناہ دے دی ہے۔ برزانی نے عراقی لیڈروں پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور صلح صفائی کر لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بحران سے ملک میں اقتدار کی تقسیم خطرے میں پڑ گئی ہے، اور ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن سے سیاسی عمل ختم ہو سکتا ہے ۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں عراق کے تجزیہ کار پیٹر ہارلنگ کہتے ہیں کہ تقریباً ایک عشرے کے بعد، امریکی فوجوں کی واپسی سے عراق میں افرا تفری پھیل گئی ہے۔’’امریکہ اپنے پیچھے ایک ایسا ملک چھوڑ رہا ہے جس میں بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ جہاں تک اختیارات کی تقسیم کے سمجھوتے کا تعلق ہے، کوئی چیز بھی حتمی طور پر طے نہیں ہوئی ہے، آئین پر ا ب بھی بحث ہو رہی ہے، دارالحکومت اور گورنروں کے درمیان تعلق اب بھی تشکیل کے مرحلے میں ہے، اور کردوں کا مسئلہ ابھی طے نہیں ہوا ہے ۔‘‘
تا ہم عراق کے بعض تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ عجلت میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ لندن کے کنگز کالج کے جیمز ڈینسیلو کہتے ہیں کہ عراق کا تازہ ترین بحران ، سیاسی عمل کا حصہ ہے ۔
’’یہ لبنان جیسا نظام ہے جس میں ایسی سیاست فتح یاب ہوتی ہے جس کی بنیاد اتفاقِ رائے پر ہو۔ اور اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو سیاسی نظام کے باہر تشدد ہو گا جب کہ سیاسی نظام نہ تو اتنا مضبوط ہے، اور نہ اس میں ایسے ادارے ہیں جو اس قسم کے اختلاف ِ رائے سے نمٹ سکے۔ لہٰذا مالکی اپنی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے کارروائی کر رہےہیں، اور وہ ایسے لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ انھوں نے ان کے اقتدار کو نقصا ن پہنچایا ہے ۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کیا یہ چیز عدالتی سیاست کے دائرے میں رہے گی، یا یہ پھیل کر زیادہ وسیع اور قومی مسئلہ بن جائے گی۔‘‘
لندن میں مقیم ایرانی تجزیہ کار مہرداد خونسری کہتے ہیں کہ عراق کی کشیدگیاں مشرق وسطیٰ میں زیادہ وسیع انداز میں نظر آرہی ہیں جہاں سنیوں اور شیعوں کے درمیان رقابتیں لبنان، شام، فلسطینی علاقوں اور بحرین میں سر اٹھا رہی ہیں۔’’سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک عرصے سے سرد جنگ چل رہی ہے جو گذشتہ کئی مہینوں کے دوران کہیں زیادہ نمایاں ہو گئی ہے ۔ وہ عراق اور شام میں کُھل کر اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘
اس دوران، عراقی، نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کیا سنیوں اور شیعوں کے درمیان کشیدگیاں پھیل کر اور زیادہ تشدد کی شکل اختیار کریں گی۔