امریکہ میں تعینات عراقی سفیر لقمان فیلی کا کہنا ہے کہ سنی عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر واشنگٹن کی طرف سے عدم تعاون کی صورت میں بغداد روس سے بھی مدد حاصل کرے گا۔
امریکہ کی طرف سے جنگجوؤں کے خلاف کم فضائی کارروائیوں پر گزشتہ ہفتوں میں عراقی عہدیداروں کی برہمی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
واشنگٹن میں عراقی سفیر نے بھی سنی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق ولشام کے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے کسی اور سے مدد حاصل کرنے کی خواہش کو رد نہیں کیا۔
’’ہماری ضرورت ہے۔ یہاں ایک خلا ہے۔ اگر امریکہ یہ خلا پر نہیں کر سکتا تو بشمول روس کے جو کوئی بھی ہو خوش آمدید کہا جائے گا۔‘‘
بغداد اور اس کے گردونواح کی سکیورٹی ایک بڑھتی ہوئی تشویش ہے اور امریکی حکام نے بھی اسے تسلیم کیا کہ شدت پسند تنظیم کی موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان ریئیر ایڈمرل جان کیبری کا کہنا ہے ’’ہم مسلسل مشاہدہ کررہے ہیں کہ تنظیم شمال و مغرب سے بغداد پر دباؤ بڑھارہی ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔‘‘
تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق ولشام سرحد پار شام میں بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے اور انٹرنیٹ پر نشر ہونے والے ایک آڈیو بیان میں تنظیم کے رہنما نے مسلمانوں کو خود ساختہ خلافت میں شامل ہونے کا کہا ہے۔
کیبری کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اس کا احساس ہے کہ انہوں نے خلافت کا اعلان کیا لیکن صرف اعلان سے خلافت نہیں بن جاتی۔‘‘
امریکہ اب بھی وہاں فوجی کارروائی کرنے کو تیار نہیں اور واشنگٹن کا کہنا ہے کہ 300 نئے فوجیوں کو ڈرون اور اپاچی پیلی کاپٹروں کی مدد حاصل ہوگی اوریہ صرف امریکی سفارتخانے، بغداد کے ہوائی اڈے پر تنصیبات اور عملے کے تحفظ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
عراق کی طرف سے امریکہ پر خاطر خواہ اقدامات نا کرنے کے الزامات پر پینٹاگان کا کہنا تھا کہ امریکی مشیر ابھی خطرے کی نوعیت اور عراق کی ضرورت کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عراق جس ملک سے بھی چاہے بات کر سکتا لیکن ان ملکوں کا عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے سے کوئی تعلق نا ہو۔