عراق کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو اپنی حدود میں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی قیادت کرنی ہو گی لیکن ساتھ ہی انھوں نے بین الاقوامی اتحادیوں کی طرف سے جاری فضائی کارروائیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے ابراہیم الجعفری نے کہا کہ عراق کو زمینی لڑائی کا بوجھ اٹھانا چاہیئے۔
سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں امریکہ سمیت دولت اسلامیہ کے مخالف ممالک کے رہنما شریک تھے۔
عراقی عہدیدار نے کہا کہ "ہمارا ماننا ہے کہ عراق کی سر زمین پر دولت اسلامیہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے لڑائی بنیادی طور پر ہماری ذمہ داری ہے، یہ عراقی مسلح افواج، پیشمرگ فورسز اور نیشنل گارڈز کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ہمیں (دولت اسلامیہ کے خلاف) فضائی کارروائیوں کے لیے دوست ممالک کی مدد درکار ہے۔"
بعد ازاں امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ شدت پسند گروہ 'دولت اسلامیہ' کو عراق اور شام میں شکست دینے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دولت اسلامیہ ایک دہشت گرد گروپ سے زیادہ کچھ نہیں اور اسے ہر صورت شکست دی جائے۔
امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان بین الاقوامی کوششوں میں ایران کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جان کیری نے دولت اسلامیہ کی طرف سے عراقی شہریوں کے قتل، اغوا، جنسی زیادتیوں اور تشدد کی مذمت کی۔
ادھر فرانس کی طرف سے عراق میں سنی شدت پسندوں پر فضائی حملے کو شیعہ مسلک کے اہم رہنماؤں کی طرف سے سراہا گیا۔
شیعوں کے ایک بااثر اور اہم رہنما آیت اللہ سیستانی کی طرف سے ان کے ایک ساتھی نے جمعہ کے خطبے میں کہا کہ عراق کو بیرونی امداد کی ضرورت ہے لیکن اسے بیرونی قوتوں کا مطیع نہیں ہونا چاہیئے۔