عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اُن کی افواج نے حویجہ کے قصبے کے دوبارہ کنٹرول کے حصول کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، جو داعش کے شدت پسندوں کے زیر قبضہ آخری علاقوں میں سے ایک ہے۔
حویجہ عراقی دارلحکومت بغداد سے 240 کلومیٹر شمال اور کرکوک کے تیل سے مالا مال شہر کے مغرب میں واقع ہے۔
داعش کے شدت پسند 2014ء سے حویجہ پر قابض ہوئے جب گروپ نے عراق کے شمال اور مغرب میں بڑے رقبے پر دھاوا بول دیا تھا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برس کے دوران 100000 سے زائد سولین علاقہ چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں، اور اندازاً 85000 جو ابھی وہاں باقی ہیں، آئندہ ہفتوں کے دوران ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں امکان ہے کہ ’’وہ بری طرح متاثر ہوں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کا دفتر برائے انسانی ہمدردی، مقامی حکام اور امدادی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، تاکہ بھاگ نکلنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی مدد کی تیاری کی جا سکے۔
عراقی افواج نے اس ہفتے کے اوائل میں مغربی صوبہٴ انبار میں اُن حصوں میں علیحدہ کارروائی کا آغاز کیا، جہاں داعش کے باقی ماندہ لڑاکے موجود ہیں۔
یہ شدت پسند دریائے فرات کی وادی میں اُس علاقے میں چھپے ہوئے ہیں جہاں داعش قابض ہے، جو دیر الزور سے لے کر رقہ کے فی الواقع دارالحکومت تک پھیلا ہوا ہے۔ شام کےیہ دونوں شہر اُس علاقے میں شامل ہیں جہاں داعش کے خلاف کارروائی شروع کی گئی ہے۔
امریکی قیادت والے اتحاد کے ترجمان، کرنل رائن ڈلون کے بقول، ’’عراقی سکیورٹی فورسز کی فوری حالیہ کامیابی سے سرکاری فوج کی جانب سے داعش کو نیست و نابود کرنے کی جاری کارروائی کی پختگی کی نشاندہی ہوتی ہے‘‘۔
حویجہ پر چڑھائی سے قبل، ڈلون نے بتایا کہ عراقی فضائیہ نے لاکھوں اشتہار تقسیم کیے ہیں جن میں داعش کے لڑاکوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا گیا ہے۔