عراق میں ایران کے حمایت یافتہ دھڑوں کی طرف سے امریکی فوجی تنصیبات پر پچھلے دو مہینوں کے دوران درجنوں حملوں نے بغداد کو توازن برقرار رکھنے کے عمل پر مجبور کر دیا ہے ۔یہ صورتحال روز بروز زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر جمعے کے روز راکٹ حملے نے صورتحال کو ایسے میں اور بھی گھمبیر کر دیا جب عراقی حکام مشرق وسطیٰ کی حالیہ جنگ کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ؛ ایران کیا سوچ رہا ہے؟ایران کا عراق میں کافی اثر و رسوخ ہے اور ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کا اتحاد اکتوبر 2022 میں عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی کو اقتدار میں لایا۔ امریکہ کے بغداد کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت عراق میں تقریباً 2000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ اس موجودگی کا مقصد بنیادی طور پر عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ یا داعش گروپ کا مقابلہ کرنا ہے۔
کیا جاننا ضروی ہے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر کم از کم 92 حملے کئے گئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری ایران کے حمایت یافتہ عراقی عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے قبول کی ہے۔جسے عراق میں اسلامی مزاحمت کا نام دیا جاتا ہے۔
SEE ALSO: عراق میں امریکی ایئر بیس پرحملہ اور جوابی کارروائیعسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملے واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اور عراق اور شام میں اس کی فوجی موجودگی کے جواب میں ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نےحملوں میں اضافے کے ردعمل میں عسکریت پسندوں کو روکنے کی کوششوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں کسی وسیع تر تنازعے کے امکان کو روکا جا سکے ۔
ایران سے بجلی خریدنے کے لیے بغداد واشنگٹن کی پابندیوں کی چھوٹ پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔امریکہ کے 2003 میں عراق پر حملےکے بعد سےعراق کے غیر ملکی کرنسی کےذخائر کو امریکی فیڈرل ریزرو میں رکھا گیا ہے۔ اس صورتحال میں امریکیوں کو عراق کے لئے ڈالرزکی فراہمی پر اہم کنٹرول حاصل ہے۔
عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی نے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور امریکہ کے جوابی حملوں کو عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے حملہ آوروں کی تلاش کے لئےعہدہ داروں کو احکامات جاری کیے ہیں۔ بیشتر حملوں میں کوئی زخمی نہیں ہوا اور تنصیبات کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے اس بارے میں مزید بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔ .
صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے: واشنگٹن کا پیغام
امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد پینٹاگون نے کہا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے السوڈانی پر ’’واضح کر دیا کہ امریکی افواج کے خلاف حملے بہر صورت بند کیے جائیں۔‘‘
ایک امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے السوڈانی سے کہا ہے کہ واشنگٹن توقع کرتا ہے کہ عراقی حکام ایسے حملوں کو روکنے کے لیے مزید کارروائی کریں گے اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: شام میں ایرانی سرپرستی کی حامل ہتھیاروں کی تنصیب پرامریکی حملہایک عراقی اہلکار نے بتایا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے خطے کے حالیہ دورے کےمیں السوڈانی کو انتباہ کیا تھاکہ اگر عراق نے حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی نہیں کی تو اسے ’’کڑے نتائج‘‘ بھگتنا ہوں گے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے اس ماہ کے شروع میں عراقی وزیر اعظم کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ امریکی ایسے معاملات کو خود سنبھالیں گے۔
ان کا استدلال تھا کہ بغداد نے حملوں کے ذمے دار وں کی تلاش کے لیے تسلی بخش کام نہیں کیا۔ عہدیداروں نے بریفنگ کے ضوابط کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا ہے۔
عراقی شہر کرکوک کے قریب امریکہ کے ایک ڈرون لانچنگ سائٹ پر حملے میں پانچ عسکریت پسند مارے گئےہیں۔
SEE ALSO: ایران سے کشیدگی، امریکہ کی میزائلوں سے لیس جوہری آبدوز مشرق وسطیٰ میں تعیناتامریکہ اور بیشتر عالمی برادری نے کوششیں کی ہیں کہ محصور غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کو پورے خطے میں پھیلنے سے روکا جائے۔ تجزیہ کار ریناد منصور نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ یہ حملے اس حد سے کم رہیں جو امریکہ کو کسی بڑے ردعمل پر اکسائے ۔
چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک کے ایک سینئر ریسرچ فیلو منصور کا کہنا ہے کہ ’’ایران اور عراق دونوں نے اب تک اس بات کا خیال رکھا ہے کہ عراق میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جائے جو سوڈانی حکومت کو غیر مستحکم کر دے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک جزوی وجہ عراق کا کردار ہے جو واشنگٹن اور تہران کے درمیان پیغامات پہنچانے میں کار فرمارہا ہے۔
السوڈانی بطور قاصد
امریکہ کے وزیر خارجہ بلنکن نے نومبر کے اوائل میں عراقی وزیر اعظم السوڈانی کے تہران کے دورے سے ایک دن قبل بغداد میں ان سے ملاقات کی تھی۔
ایک عراقی اہلکار اور کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک رکن کے مطابق السوڈانی نے عسکریت پسند تنظیم سےسے یہ وعدہ لیا تھا کہ بلنکن کے دورے کے دوران کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا۔
السوڈانی نے اس دورے کے بعد بلنکن کی جانب سے ایران کو پیغام پہنچایا کہ وہ ان ملیشیاؤں کو ان کی کارروائیوں سے روکے۔ دونوں عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ وہ عوامی سطح پر تبصرہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
امریکہ نے عراقی وزیر اعظم کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ایرانی بجلی خریدنے کے لیے عراق پر عائد پابندیوں کی چھوٹ میں چار ماہ کی توسیع کر دیہے۔
واشنگٹن میں ایران کے ناقدین نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک ایسے وقت میں تہران کی آمدنی میں اضافہ ہو گا جب اس کے پراکسیز اسرائیل کے ساتھ نبرد آزماہیں ۔
چیتھم ہاؤس کے منصور کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے ایران اور عراق پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان پابندیوں میں چھوٹ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہے۔
لبنان کے حزب اللہ گروپ کے برعکس عراقی ملیشیاؤں نے ابھی تک اس تنازعے میں محدود کردار ادا کیا ہے۔ حزب اللہ کو خطے میں ایران کی سب سے طاقتور پراکسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
SEE ALSO: عراق میں امریکی ایئر بیس پرحملہ اور جوابی کارروائیکتائب حزب اللہ گروپ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ فی الحال عراقی ملیشیاؤں کی صرف ایک چھوٹی سی تعداد جنوبی لبنان میں ہے جو اسرائیل کی شمالی سرحد کے قریب ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیم فوجی جتھوں کے یہ ارکان عراقی حزب اللہ اور حماس کے نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
عسکریت پسند گروپ حماس نے 16 سال سے غزہ پر حکومت کی ہے اور اس وقت اسرائیل سے جنگ کر رہا ہے۔ عہدہ دار نے کہا کہ عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہ یہ نہیں چاہتے کہ تنازعہ پورے خطے میں پھیلے لیکن وہ کسی بھی حملے کا طاقت سے جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
بغداد یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایاد الانبار نے کہا کہ اگر ایران اور اتحادیوں نے شدت پسندی کا انتخاب کیا تو السوڈانی کی حکومت ممکنہ طور پر عراقی سرزمین پر اسے کنٹرول کرنے یا اس کے نتائج کو روکنے میں ناکام رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ السوڈانی اپنے بیانات کے ذریعے صورتحال کو پرسکون رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے۔