امریکہ کی بحریہ نے 154 ٹام ہاک میزائلوں سے لیس اپنی جوہری آبدوز مشرق وسطیٰ روانہ کر دی ہے۔
امریکی بحریہ کے ترجمان نے ہفتے کو آبدوز کی روانگی سے متعلق تصدیق کی ہے۔ یہ اقدام حالیہ تناؤ کے پیش نظر کیا گیا ہے جس کا باعث ایران بتایا جاتا ہے۔
امریکی کی بحریہ شاذ و نادر ہی آبدوز کا محل وقوع بتایا کرتی ہے۔ خلیجی ریاست بحرین میں تعینات پانچویں امریکی بحری بیڑے کے کمانڈر ٹموتھی ہاکنز نے جوہری آبدوز کے مشن اور تعیناتی کی وجہ بیان نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ریاست جارجیا کے کنگز بے پر لنگرانداز جوہری آبدوز کو روانہ کیا گیا ہے جو جمعے کے روز سوئس کینال سے گزری۔
ہاکنز کے بقول آبدوز زمین پر حملے کی صلاحیت رکھنے والے 154 ٹام ہاک میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خطے کی آبی سلامتی اور استحکام میں مدد دینے کے لیے امریکی ففتھ فلیٹ کے ساتھ تعینات کی جاتی ہے۔
پانچواں بحری بیڑا آبنائے ہرمز کے گشت پر مامور رہتا ہے جو خلیج فارس کی چوٹی سے ہوتی ہوئی آبنائے سے گزرتی ہے۔ آبنائے ہرمز سے دنیا کو تیل کی 20 فی صد ترسیل جاری رہتی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل الزام لگاتے رہے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران ایران کی جانب سے تیل کے بحری ٹینکروں اور تجارتی مقاصد سے گزرنے والے سمندری جہازوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ البتہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
امریکی بحریہ بھی ایرانی فوج کے ساتھ تناؤ اور کئی بار آمنے سامنے آنے کی اطلاعات دیتی رہی ہے جس کے لیے اس کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی جارحانہ نوعیت کے واقعات تھے۔
گزشتہ سال شام کے شمال مشرق میں واقع علاقے میں ایران کی جانب سے کیے گئے راکٹ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت اور سات دیگر امریکیوں کے زخمی ہونے پر امریکہ نے جوابی کارروائی کے طور پر شام میں ایرانی حمایت یافتہ افواج پر فضائی حملے کیے تھے۔
بحری جہاز یا آبدوز سے داغے گئے ٹام ہاک کروز میزائل 2500 کلومیٹر فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سال 2003 میں جب امریکہ کی قیادت میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا اس جنگ کے ابتدائی ایام کے دوران اور 2018 میں جب شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات کے بعد ٹام ہاک کروز میزائل استعمال کیے گئے تھے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔