عراق کی اسپیشل فورسز نے داعش کے زیر قبضہ شہر موصل کے مشرقی جانب جمعہ کو مزید قصبوں میں کارروائیوں کا تیز کر دیا جو کہ شدت پسند گروپ کو یہاں سے مار بھگانے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن کا حصہ ہے۔
اسپیشل فورسز کے لیفٹیننٹ کرنل محند التمیمی نے امریکی خبررساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو بتایا کہ توپ خانے اور راکٹ باری کی مدد سے یہ پیش قدمی عدن، تحریر اور قدس کے علاقوں میں کی گئی۔
ان کے بقول شدت پسندوں کی طرف سے فورسز پر مارٹر گولے داغے گئے اور دونوں جانب سے شدید لڑائی جاری ہے۔
عراقی فورسز نے کرد پیش مرگہ اور شیعہ ملیشیا کے ساتھ مل کر امریکی زیر قیادت اتحادی فورسز کی فضائی مدد سے گزشتہ ماہ سے موصل کو واگزار کروانے کی کارروائی شروع کی تھی۔
اس شہر میں لاکھوں شہری بھی موجود ہیں اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ شدت پسند انھیں ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
لڑائی والے علاقوں سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر کے کرد اکثریتی آبادی والے علاقے خضر میں قائم کیمپ میں پہنچ رہے ہیں۔
کاروں، بسوں، ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر سوار لوگوں کی بڑی تعداد یہاں پہنچی ہے اور یہ لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے کوائف کا اندراج کروا رہے ہیں۔
ان افراد میں شامل ایک خاتون کہتی ہیں کہ "ہم دو سال سے اپنے گاؤں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے، ہمارا گاؤں تین روز قبل ہی داعش کے قبضے سے آزاد ہوا تھا لیکن داعش موصل سے ہم پر راکٹ باری کر رہا ہے۔"
خضر کیمپ کی دیکھ بھال میں شامل بارزانی چیریٹی فاؤنڈیشن کے عہدیدار رزگار بارزانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہ لوگ بہت خطرناک صورتحال سے نکل کر آ رہے ہیں اور جب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو وہ بہتر محسوس کرتے ہیں کیونکہ معلوم ہے کہ اب وہ محفوظ ہیں۔"
موصل عراق میں شدت پسند گروپ داعش کا آخری مضبوط گڑھ ہے اور اس کے راہنما ابوبکر البغدادی کی طرف سے اپنے جنجگوؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر صورت اس کا قبضہ برقرار رکھیں۔
تاہم عراقی فورسز شہر کے تقریباً تمام ہی اطراف سے اس پر گھیرا تنگ کرتی چلی آرہی ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ چند ہفتوں میں وہ اس کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔