ہفتوں جاری رہنے والی غضب ناک لڑائی کے بعد، جمعے کو عراقی سلامتی افواج نے داعش کا حصار توڑنے کے بعد فلوجہ کے وسط میں قدم رکھا، جو شہر بغداد کے مغربی علاقے کے ساتھ واقع ہے، جہاں داعش نے دو سال سے زائد عرصے تک اس پر تسلط برقرار رکھا۔
اتحادی فضائی کارروائی میں داعش کے اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں حکمتِ عملی کے حامل دو دستوں کو ہدف بنایا گیا، جب کہ چھ بھاری مشین گنیں تباہ کی گئیں، ایسے میں جب خصوصی عراقی افواج نے داعش کی کمان کے مرکز کو قبضے میں لے لیا ہے۔
اتحاد کے ترجمان، کرنل کِرس گارور نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عراقی افواج نے شہر کے وسطی علاقے میں واقع ایک سرکاری عمارت کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
ہزاروں افراد کا انخلا
ایسے میں جب داعش سے شہر کے جنوب مشرق کا خاصہ علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے، تقریباً 18000 افراد شہر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جنھوں نے لڑائی سے جان بچائی ہے، جب کہ جائے حفاظت کی تلاش میں کئی لوگ 15 کلومیٹر تک پیدل چلے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، برونو گیدو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اطلاعات ملی ہیں کہ باہر آنے والے افراد میں کئی ایک کو داعش نے ٹانگوں پر گولیاں ماری ہیں، جس کا مقصد ڈرانا دھمکانا ہے‘‘۔
گیدو نے بتایا کہ محفوظ مقام پر پہنچنے کے بعد عراقی فوج یا اُن کے رشتہ دار اُن کی مدد کو آئے۔
بقول اُن کے، ’’متعدد لوگ تھک ہار چکے ہیں، جب کہ راستے میں ہی کئی افراد کی موت واقع ہوچکی ہے‘‘۔ بتایا جاتا ہے کہ لاغر اور زخمی لوگوں کو ایمبولنس میں ڈال کر قریبی اسپتالوں کی جانب لے جایا گیا۔
جان بچا کر بھاگ نکلنے والوں میں داعش لڑاکوں کے کی کئی خاندان بھی شامل ہیں۔ گیدو کے بقول، ’’بتایا جاتا ہے کہ شہر سے باہر نکلنے والے مہاجرین کے ریلے میں داعش کے لڑاکوں کی بیویاں اور بچے بھی شامل ہیں‘‘۔
گذشتہ تین ہفتوں کے دوران، 50000 سے زائد لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں آیا اس وقت شہر میں کتنے خاندان باقی ہیں۔