|
گزشتہ ایک عشرے میں اسرائیل نے راکٹ اور میزائل حملوں کے دفاع کے لیے ایک جامع دفاعی میزائل نظام تشکیل دیا ہے۔ یہ نظام تب ہی حرکت میں آتا ہے جب یہ راکٹ یا میزائل شہری، سرکاری یا فوجی عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہوں۔ اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ نظام سو فیصد کامیابی نہیں دیتا لیکن بہت سی جانوں اور املاک کے نقصان کو بچاتا ہے۔
یہاں اسرائیلی دفاعی میزائل نظام کے مختلف تہوں کا ذکر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دی ایرو
یہ نظام امریکہ میں تیار کیا گیا تھا اور یہ دور مار کرنے والے میزائلوں، جن میں منگل کے روز ایران کی جانب سے فائر کیے جانے والے بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں کے خلاف کام آتا ہے۔ دی ایرو، یعنی تیر زمین کی فضا سے باہر کام کرتا ہے اور حالیہ تنازع کے دوران یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کیے گئے میزائلوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ڈیوڈز سلنگ
یہ نظام بھی امریکہ میں تیار کیا گیا اور یہ درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے حزب اللہ کے پاس موجود میزائلوں کے خلاف اسے استعمال کیا گیا۔ حالیہ تنازع کے دوران اسے کئی بار استعمال کیا گیا۔
SEE ALSO: بیروت میں اسرائیلی کارروائی میں ہلاکتیں 31 ہو گئیں، حزب اللہ کے دو اہم کمانڈر بھی شاملآئرن ڈوم
آئرن ڈوم یعنی فولادی گنبد اسرائیل میں امریکہ کی مدد سے تیار کیا گیا اور یہ چھوٹے فاصلے پر مار کرنے والے راکٹوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظام نے گزشتہ دہائی کے دوران اب تک ہزاروں راکٹوں کو فضا میں تباہ کیا ہے۔ حالیہ تنازع کے دوران بھی اس نظام نے حماس اور حزب اللہ کی جانب سے فائر کیے جانے والے ہزاروں راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ کیا ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس کی کامیابی کی شرح 90 فیصد تک بتائی جاتی ہے۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں صورتِ حال مزید کشیدہ؛ حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے ایک دوسرے پر حملےآئیرن بیم
اسرائیل ایک نیا نظام تشکیل دے رہا ہے جو لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے آنے والے خطرات سے نبرد آزما ہوگا۔ یہ نظام موجود مختلف قسم کے دفاعی میزائل نظام کے مقابلے میں قدرے سستا پڑے گا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق آئیرن ڈوم کی جانب سے ایک راکٹ کو روکے جانے کی قیمت پچاس ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ دوسرے نظاموں کے تحت ایک میزائل کو روکنے کا خرچ بیس لاکھ ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق آئیرن بیم کی مدد سے راکٹوں کو روکے جانے کی لاگت چند ڈالر تک رہ جائے گی۔ لیکن یہ نظام ابھی تک باقاعدہ استعمال میں نہیں ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔