چین کے وزیرِ دفاع لی شنگ فو ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں۔ وہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 28 اپریل کو منعقد ہونے والے وزرائے دفاع اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی پہنچے ہیں جہاں انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات بھی کی ہے۔
بھارتی وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق جمعرات کو دونوں رہنماؤں نے سرحدی تنازع اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا۔بیان کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارت اور چین کے باہمی رشتوں کا انحصار سرحد پر امن و استحکام پر ہے۔ لائن آف ایکچوؤل کنٹرول (ایل اے سی) سے متعلق تمام تنازعات کو باہمی سمجھوتوں اور معاہدوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ باہمی سمجھوتوں کی خلاف ورزی نے باہمی تعلقات کی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔انہوں نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے متنازع مقامات سے فوجیوں کی واپسی پر بھی زور دیا۔
اس ملاقات سے متعلق چینی حکومت کا ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک لگ بھگ گزشتہ تین برس سے جاری سرحدی کشیدگی اور باہمی تعلقات تناؤ کی وجہ سے چین کے وزیرِدفاع کے دورۂ بھارت کو اہم سمجھا جا رہا ہے ۔تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی توقع بہت کم ہے کہ سرحدی کشیدگی ختم کرنے اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے میں یہ دورہ کسی اہم پیش رفت کا ثابت ہوگا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ جب تک سرحد پر صورت حال معمول پر نہیں آتی دونوں ملکوں کے رشتے بھی معمول پر نہیں آسکتے۔ جب کہ چین کا کہنا ہے کہ سرحد پر جو بحران کی صورت حال تھی وہ ختم ہو گئی ہے، اب بھارت کے ساتھ رشتے معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
SEE ALSO: سرحدی محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے چین اور بھارت کے فوجی حکام کی ایک اور ملاقاتبھارت اور چین کا سرحدی تنازع بہت پرانا ہے۔ دونوں ممالک میں 1962 میں جنگ بھی ہوچکی ہے اور دونوں کے باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔لیکن 15 جون 2020 کو مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں چین اور بھارت کی افواج کے درمیان ہونے والے خوں ریز تصادم کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ سات گھنٹے تک جاری رہنے والےاس تصادم میں بھارت کے 20 اور چین کے چار جوان ہلاک ہوئے تھے۔
اس تصادم کے بعد ہونے والے سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات کے 18 ادوار ہوچکے ہیں۔ حالیہ مذاکرات 23 اپریل کو ہوئے تھے لیکن اس کے بعد بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
اس سے قبل مذاکرات کے نتیجے میں چار مقامات گلوان وادی، پینگانگ سو، گوگرا پیٹرولنگ پوائنٹ 17 اے اور ہاٹ اسپرنگ پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے دونوں ملکوں کی فوجیں پیچھے ہٹائی گئی ہیں۔البتہ دولت بیگ اولڈی سیکٹر میں دیپسانگ اور ڈیمچوک سیکٹر میں چارڈنگ نالہ جنکشن پر تنازعات برقرار ہیں۔
ایل اے سی کی صورت حال
دفاعی تجزیہ کارجنرل (ر) پی کے سہگل کہتے ہیں کہ چین کی فوجیں اپریل 2020میں دیپسانگ، گوگرا ہائٹس، پیگانگ سو اور ڈیمچوک علاقے میں آئی تھیں۔ دیپسانگ اور ڈیمچوک بھارت اور چین دونوں کے لیےاسٹرٹیجک اعتبار سے بہت اہم ہے، وہاں چین کی فوج موجود ہے جو بھارت کی نقل و حمل پر نظر رکھ رہی ہیں۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں جانب سے 50، 50 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں۔ دونوں ملکوں نے ایل اے سی پر تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ چین نے اروناچل پردیش میں تیسری مرتبہ بعض مقامات کے نام بھی تبدیل کیے ہیں جسے بھارت نے مسترد کردیا ہے۔
بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 10 اپریل کو اروناچل پردیش کا دورہ بھی کیا تھا اور سرحدی علاقوں میں تعمیری منصوبوں کا افتتاح کیا تھا۔ چین نے ان کے دورے پر اعتراض کیا جسے بھارت نے مسترد کردیا۔خیال رہے کہ دونوں ممالک اروناچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے بیانات میں تضاد
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ 10 ستمبر 2020 کو ماسکو میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایس جے شنکر اور وانگ ای نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ سرحد کی موجودہ صورت حال دونوں ملکوں کے مفاد کے منافی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج مذاکرات جاری رکھیں، متنازع مقامات سے پیچھے ہٹیں اور کشیدگی سے بچنے کے لیے آپس میں مناسب فاصلہ قائم رکھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس بیان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ لیکن چین اسی بیان کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ ہم معمول کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ان کے بقول چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں اپنے باہمی تعلقات کو عالمی صورتِ حال کے تناظر میں دیکھنا ہوگااور سرحدی تنازع کو صرف بقدرِ ضرورت اہمیت دینا ہوگی۔اگر اس پر زیادہ توجہ مبذول کی گئی تو باہمی رشتوں کی دوسری ضروری باتوں کو اہمیت نہیں مل پائے گی۔
SEE ALSO: 'بھارت اس سال دنیا کا سب سے زیادہ آبادی کا ملک بن جائے گا'سینئر تجزیہ کار اور پروفیسر بی آر دیپک کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں۔ چین نے بھارتی طلبہ کو اپنے یہاں آنے کی اجازت دے دی ہے جب کہ نئے داخلے بھی ہو رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں سیاسی و عوامی سطح پر سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ اور چین میں بالادستی کی جنگ اور بھارت کا کردار
تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان بالادستی کی جنگ چل رہی ہے اور اس میں کسی حد تک بھارت بھی شامل ہوگیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر بھارت امریکہ کے اتنے قریب نہ ہوتا تو شایدبھارت اور چین کے رشتوں کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ اس جنگ میں بھارت کا بہت اہم کردار ہے۔ ایشیا پیسیفک دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک ویسٹرن پیسفک ہے جس میں آسیان، تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین ہیں جن کے مسائل الگ ہیں۔ جب کہ دوسرا حصہ بحر ہند ہے۔
ان کے مطابق بحرِ ہند کے تناظر میں اگر ہم بھارت کے جغرافیہ اور اس کی فوجی طاقت پر نظر ڈالیں تو بھارتی فوج امریکی فوج کی کافی مدد کرسکتی ہے کیوں کہ چین کے لیے تجارتی سپلائی یہاں سے ہوکر گزرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کا خیال ہے کہ بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر اس کی بحری راہداری اور تجارتی ٹریفک کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ان کے بقول بھارت پوری طرح امریکہ کے ساتھ ہو گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کوئی ملک امریکہ کے ساتھ چار ملٹری معاہدوں پر دستخط کرلے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس کے دفاعی نیٹ ورک کا حصہ بن گیا ہے۔مودی حکومت نے ان چاروں معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ انڈوپیسیفک میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنا چاہتا ہے۔ بھارت بھی اس سرگرمیوں سے تشویش میں مبتلا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے امریکہ کی طرف جانے کا ایک سبب انڈوپیسیفک میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنا بھی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جس طرح بھارت اور چین کے درمیان بداعتمادی اور کشیدگی بڑھی ہے وہ ان دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
کواڈ کا معاملہ
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ چار ممالک امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل گروپ کواڈ بھی ہے۔
ان کےبقول امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان فوجی اتحاد ہے یعنی اگر ان میں سے کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے تو باقی دو ممالک اس کی مدد کریں گے۔
SEE ALSO: چین خود کو ترقی یافتہ ملک کہلوانے سے کیوں انکار کر رہا ہے؟وہ کہتے ہیں کہ بھارت ان ملکوں کے ساتھ فوجی اتحاد میں شامل نہیں۔ لیکن اس نے امریکہ کے ساتھ فاؤنڈیشن ایگریمنٹ پر دستخط کیے ہیں۔ چین کواڈ کو مِنی نیٹو کی حیثیت سے دیکھتا ہےاوروہ بارہا کواڈ کی مخالفت بھی کر چکا ہے۔ اس کےبرعکس امریکہ انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کواڈ کے ایجنڈے کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ یہ گروپ بھارت چین سرحدی تنازع کے حل میں مددگار ثابت ہوگا۔
واضح رہے کہ جنرل سیکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ (جی ایس او ایم آئی اے)، لاجسٹکس سپورٹ ایگریمنٹ (ایل ایس اے)، کمیونی کیشن انٹروپیریبلیٹی اینڈ سیکیورٹی میمورنڈم آف ایگریمنٹ (سی آئی ایس ایم او اے) اور بیسک ایکسچینج اینڈ کو آپریشن ایگریمنٹ فار جیو اسپیشل کو آپریشن (بی ای سی اے) کو فاؤنڈیشن ایگریمنٹ کہتے ہیں۔
بھارت نے مئی 2019 میں امریکی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل جان ایم رچرڈسن کے دورہ بھارت کے موقع پر اس پر دستخط کیے تھے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ چین کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ بھی اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے اور ان کے بقول یہ تاثر بڑی حد تک درست لگتا ہے۔
پروین ساہنی کے مطابق دونوں جانب سے جس قسم کے بیانات آرہے ہیں اس میں ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان دونوں ممالک کے تعلقات کے معمول پر آنے کے امکانات کم ہیں۔