سوات کے علاقے کبل میں سوموار کی شام انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن کے مال خانے میں کئی من بارودی مواد کے پھٹنے سے خوف ناک دھماکہ ہوا جس سے پوری عمارت زمین بوس ہو گئی۔
اس دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک پولیس اہلکار کو بلٹ پروف جیکٹ پہنے، بندوق اٹھائے اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے تباہ عمارت کے باہر کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو میں پولیس اہلکار کے کچھ ساتھی ان سےخیریت دریافت کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ’’بابا آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
جس کے جواب میں خوف میں گھرے، حواس باختہ انداز میں پولیس اہلکار پشتو زبان آگاہ کرتا ہے کہ ’’جی میں ٹھیک ہوں۔‘‘
اس دھماکے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے اس پولیس اہلکار کا نام تاجبر خان ہے جن کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے علاقہ درگئی سے ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس رات کا احوال بتاتے ہوئے تاجبر خان نے بتایا کہ ان کی ڈیوتی رات آٹھ بجے شروع ہوئی اور وہ معمول کے مطابق گیٹ پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔
ان کے مطابق اس سی ٹی ڈی تھانے کے قریب واقع مسجد میں عشا کی نماز کا وقت ساڑھے آٹھ بجے تھا اور کچھ لوگ مسجد کی جانب گامزن تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکے سے زمین لرز اٹھی اور وہ سب افراد اللہ اکبر کا ورد کرتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئے۔
تاجبر خان نے دھماکے کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیکنڈوں میں اس سارے علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن کی عمارت پندرہ گز کے فاصلے پر تھی جو دھماکے سے مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس کے شیشے اور ملبہ دور دور تک پھیل گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس دھماکے کے بعد بننے والا گرد و غبار اس قدر زیادہ تھا کہ وہ اس میں وہ مکمل طور پر اٹ گئے تھے اور یہی وجہ تھی یہ سب کچھ اتنے قریب ہونے کی وجہ سے جب انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی تو انہیں اپنے آپ کے زندہ ہونے کا یقین ہی نہیں تھا۔
تاجبر خان کی عمر 55 برس ہے۔ وہ پاکستان کی فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔وہ فوج سے 2005 میں ریٹائرڈ ہوئے تھے جب کہ 2008 میں سوات میں حالات کی خرابی کے باعث انہوں نے پولیس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ وقت تھا جب سوات کے حالات انتہائی خراب تھے۔ سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کے خوف سے اخباروں میں پولیس سے لاتعلقی اور مستعفی ہونے کی خبریں لگواتے تھے۔ ان کے مطابق انہوں نے خوف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان حالات میں بھی علاقے کے مستقبل اور امن و امان کی خاطر پولیس میں شمولیت اختیار کی۔
سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن میں دھماکے سے 17 افراد ہلاک جب کہ 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کے متعلق تحقیقات جاری ہیں کہ آیا یہ دہشت گردی کے باعث پیش آیا یہ کسی حادثے کے نتیجے میں دھماکہ ہوا تھا۔
دوسری جانب سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی ایسے حادثات پیش آ چکے ہیں لیکن ان سے سبق نہیں سیکھا گیا۔ خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ اس واقعے کو مجرمانہ اور پیشہ ورانہ غفلت قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ بارودی مواد کے رکھنے کے لیے مخصوص مراکز ہوتے ہیں جنہیں تپش، بجلی کی وائرنگ اور روشنی سے دور رکھا جاتا ہے لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق اس تھانے میں ایسے قواعد کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
پیر کی رات دھماکہ ہونے کے بعد بھی تاجبر خان رات دو بجے تک ڈیوٹی پر موجود رہے۔
پانچ بیٹیوں کے والد تاجبر خان اس سانحے کے بعد ڈیوٹی پر واپس آ چکے ہیں لیکن اب بھی ان کے حواس مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے ہیں خصوصا سماعت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
ان کے مطابق اب سیکیورٹی ڈیوٹی کرنا دن بدن مشکل اور تکلیف دہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیوٹی پر کھڑے ہو کر جب ارد گرد نگاہ ڈالتے ہیں یا کھانے کے لیے میس جاتے ہیں تو دائیں بائیں خالی کرسیاں شدید تکلیف دیتی ہیں کیوں کہ ان پر بیٹھنے والوں میں سے بیشتر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔