معروف بھارتی کامیڈین منور فاروقی پر ہندو سخت گیر تنظیموں کے مبینہ دباؤ کے بعد اب سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا بھارت میں آزاد آوازوں کے لیے کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔
ہندوتوا نواز تنظیموں کے مبینہ دباؤ کے بعد اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے دو ماہ کے دوران 12 شوز منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
منور نے اپنے حالیہ شو کی منسوخی کے بعد اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ 'نفرت جیت گئی، فن کار ہار گیا۔' انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ وہ اب کامیڈی کرنا چھوڑ دیں گے۔
نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ ابلاغِ عامہ سے وابستہ رائٹر اور اسٹیج فن کار پروفیسر دانش اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "ایک فن کار جو کچھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ مقبول ٹرینڈ سے مختلف ہوتا ہے اور اسے اس ملک میں کبھی بھی بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔"
انہوں نے منور فاروقی کے معاملے پر کہا کہ بھارت میں بعض لوگوں کی ذہنیت اختلافِ رائے کو پہلے بھی برداشت نہیں کرتی تھی اور اب بھی نہیں کر رہی۔
پروفیسر دانش اقبال کے مطابق یہ صورتِ حال تب تک نہیں بدلے گی جب تک ذہنی کشادگی نہیں آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہمیشہ اس قسم کا رویہ اور سنسر شپ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کی مغربی ریاستوں میں جب ایک فن کار اسٹیج پرفارمنس کرنے جاتا ہے تو اسے پولیس کو اپنی اسکرپٹ دینی ہوتی ہے۔
منور فاروقی کو رواں برس کے آغاز میں دو جنوری کو اندور پولیس نے دائیں بازو کی تنظیموں کی شکایت پر گرفتار بھی کیا تھا اور انہیں ایک ماہ سے زائد جیل میں رہنا پڑا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے منور فاروقی کی ضمانت منظور کر کے سات فروری کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: 'میں دو انڈیا سے ہوں‘ ؛ ویر داس کی نظم وائرل، گرفتاری کا مطالبہپروفیسر دانش اقبال کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جب فن کار پرفارم کرے تو وہ اسکرپٹ لے کر کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ آرٹسٹ نے الفاظ تو بدل نہیں دیے۔
ان کے مطابق اسکرپٹ مانگنے کا قانون آزاد آوازوں کو دبانے کے لیے انگریزوں کے دور میں بنا تھا جو آج بھی باقی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بالی وڈ میں بھی ہر فلم ساز کو سنسر بورڈ سے جنگ لڑنی پڑتی ہے اور اس جنگ کی خبر عوام تک نہیں آ پاتی لیکن اب سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ ساری باتیں سامنے آ جاتی ہیں جو ایک اچھی بات ہے۔ اب ایسے اقدامات پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی کامیڈین ویر داس کو بھی اپنی نظم 'میں دو انڈیا سے ہوں' کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ویر داس پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کا نام بدنام کیا ہے جس پر انہیں گرفتار کیا جائے۔
پروفیسر دانش اقبال کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ذہنیت کا معاملہ ہے۔ بھارت میں یہ ذہنیت پہلے سے موجود رہی ہے، راج کپور اور گرو دت سے لے کر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انگریزوں کے دور میں اظہارِ خیال کی بقول ان کے زیادہ آزادی تھی لیکن اب وہ آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے۔
'ایک فن کار کو بولنے سے روکنا شرمناک ہے'
دوسری جانب نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ڈاکٹر ابھے کمار مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات اس وقت پیش آ رہے ہیں جب ملک میں یومِ آئین منایا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم اور دیگر وزرا آئین و قانون کی پاسداری قسمیں کھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی ہے لیکن بھارت میں یہ ہو رہا ہے کہ اگر آپ اقلیت ہیں اور صحیح بات بھی کہیں گے تو بھی آپ کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس کے برعکس اگر آپ کا تعلق اکثریت اور بالخصوص آر ایس ایس کی تنظیموں سے ہے تو آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان کے بقول بھارت کے آئین نے سب کو مساوی حقوق دیے ہیں اور قانون کی نظروں میں سب برابر ہیں لیکن بقول ان کے عملی طور پر ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس ملک میں اکثریت اور اقلیت کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک فن کار کو بولنے سے روکنا انتہائی شرمناک ہے۔
انہوں نے منور سے اپیل کی کہ انہیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ وہ اپنے پروگرام جاری رکھیں۔
ڈاکٹر ابھے کمار مشرا نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اس معاملے پر از خود کارروائی کرنی چاہیے کیوں کہ لوگوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
کامیڈین منور فاروقی کے شوز منسوخ کرنے پر بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سابق صدر اور رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی اور کانگریس کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور سمیت انسانی حقوق کے کارکن، اسٹیج فن کار اور بالی وڈ سے وابستہ شخصیات کی جانب سے پولیس کارروائی کی مخالفت اور مذمت بھی کی گئی تھی۔
ابھے کمار نے کہا کہ اس سے قبل عالمی شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین کے ساتھ بھی ایسی ہی بد تمیزی کی گئی تھی۔ دلیپ کمار، نصیر الدین شاہ اور ابھی حال ہی میں سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے خلاف بھی ہنگامہ کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ایودھیا پر لکھی گئی سلمان خورشید کی کتاب کے ایک جملے پر ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور اسے نذر آتش کیا گیا۔ حالاں کہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں اس کتاب پر پابندی لگانے سے انکار کیا اور کہا کہ جو اس کتاب کو نہیں پڑھنا چاہتا وہ نہ پڑھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیمیں ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس ملک سے اختلاف رائے کا ماحول ختم ہو جائے اور بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جا سکے۔
یاد رہے کہ 'سری رام سینا' اور 'ہندو جاگرتی' سمیت کئی ہندوتوا نواز تنظیموں نے بنگلورو پولیس کمشنر سے منور فاروقی کی مبینہ طور پر ہندوؤں کے جذبات مجروح اور ہندو دیوتاؤں کی توہین کرنے کی شکایت کی تھی۔
جے این یو کے ابھے کمار کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتِ حال باقی رہی تو اس سے ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام سیکولر طاقتوں کو چاہیے کہ وہ ان عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
منور فاروقی کون ہیں؟
منور فاروقی جنوری 1992 میں گجرات کے شہر جوناگڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔
کامیڈین منور فاروقی کا خاندان 2002 کے فسادات سے بری طرح متاثر ہوا تھا جس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی کے ڈونگری علاقے میں منتقل ہو گئے تھے۔
منور فاروقی 2017 سے اسٹینڈ اپ کامیڈی کر رہے ہیں اور وہ بھارت کے ایک مقبول
اسٹینڈ اپ کامیڈین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔