اگر آپ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تو آپ کو ایک آپشن کی کمی شاید زیادہ محسوس ہوتی ہو اور وہ ہے 'ایڈٹ' کا فیچر۔
سوشل میڈیا پر اکثر صارفین ٹوئٹر پر اس فیچر کے نہ ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور بارہا یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ٹوئٹر کو اپنے پلیٹ فارم پر 'ایڈٹ' کا فیچرمتعارف کرا دینا چاہیے۔
ٹوئٹر دنیا بھر میں مائیکرو بلاگنگ کے لیے مشہور پلیٹ فارم ہے اور دنیا کی معروف شخصیات، سربراہانِ مملکت اور دیگر افراد اسے استعمال کرتے ہیں۔
مگر کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی صارف اگر کوئی غلط ٹوئٹ کر بیٹھے یا اس کے ٹوئٹ میں کوئی غلطی ہو تو اسے وہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔
ٹوئٹر پر اس فیچر پر کئی مرتبہ بحث ہوتی رہی ہے مگر حال ہی میں یہ فیچر اس وقت موضوعِ بحث بنا جب دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک اور الیکٹرک گاڑیوں کی معروف کمپنی ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک کی جانب سے اس پر ایک پول کرایا گیا۔
ایلون مسک نے منگل کو اپنے ٹوئٹر پر ایک پول کرایا جس میں انہوں نے صارفین سے پوچھا کہ وہ ایڈٹ بٹن چاہتے ہیں یا نہیں۔
منگل کی صبح ڈالے گئے اس پول میں کچھ ہی گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں نے اپنی رائے دی اور 25 لاکھ سے زائد لوگوں میں سے 73 فی صد سے زائد نے ہاں جب کہ 26 فی صد سے زائد نے نہیں میں رائے دی۔
ایلون مسک کے ٹوئٹر پر آٹھ کروڑ سے زیادہ فالوورز ہیں اور وہ 2009 سے اس پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مسک کی جانب سے یہ ٹوئٹ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایلون مسک ٹوئٹر کے 9.2 فی صد کے شراکت دار ہیں۔
ان شیئرز کی مالیت لگ بھگ تین ارب ڈالر ہے جو انہیں اس مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ کا سب سے بڑا شراکت دار بناتے ہیں۔
اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ٹوئٹر مستقبل میں اپنے پلیٹ فارم پر اس فیچر کا اضافہ کرے گا یا نہیں مگر ایلون مسک کے اس پول پر ٹوئٹر کے سی ای او نے بھی جواب دیا ہے۔
ٹوئٹر کے سی ای او پراگ اگروال نےلکھا کہ اس پول کے نتائج اہم ہوں گے۔ ''براہ مہربانی احتیاط سے ووٹ دیں۔''
اس سے قبل یکم اپریل کو ٹوئٹر نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر ایک ٹوئٹ کیا تھا کہ وہ طویل عرصے سے انتظار کردہ 'ایڈٹ' کے فیچر پر کام کر رہے ہیں۔
البتہ جب یہ پوچھا گیا کہ آیا یہ ٹوئٹ ایک مذاق تھا تو کمپنی کا کہنا تھا کہ ''ہم اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے لیکن ہوسکتا ہے ہم اپنا بیان بعد میں ایڈٹ کر دیں۔''
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔