یورپی پارلیمانی وفد کے انتباہی ٹوئٹس، کیا پاکستان کا 'جی ایس پی پلس' اسٹیٹس خطرے میں ہے؟

پاکستان یورپی منڈیوں میں کپڑے کی مصنوعات بھی برآمد کرتا ہے۔

یورپی یونین کے پارلیمانی وفد نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو اس کو حاصل تجارتی مراعات پر مبنی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا امکان کم ہو سکتا ہے۔

یورپی یونین کے چار رُکنی پارلیمانی وفد نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے دورے کے دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور دیگر حکام کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو حاصل 'جی ایس پی پلس' کی ترجیحی تجارتی سہولت کے تحت پاکستان کو یورپی منڈیوں تک آسان رسائی کے علاوہ ٹیکسز میں بھی چھوٹ حاصل ہے۔ پاکستان اپنی برآمدات کا 31 فی صد صرف یورپی یونین کو برآمد کرتا ہے۔

پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے حاصل ہونے والی ترجیحی تجارت کی سہولت کی 31 دسمبر 2023 کو ختم ہونے والی مدت کے لیے نظرِ ثانی کا عمل جاری ہے اور اسی ضمن میں یورپی پارلیمانی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

وفد میں شامل ایک رکن لوئیس گاریکانو نے پاکستان کے دورے سے واپسی کے بعد متعدد ٹوئٹس میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت تجارتی رعایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے خواتین، اقلیتی برادری کے حقوق کے ساتھ آزادیٔ صحافت کی صورتِ حال کو بہتر کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔

پاکستان میں اقلیتی برادری کے تحفظ سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے گاریکانو نے کہا کہ مبینہ جبری شادیوں کے واقعات اب بھی رونما ہو رہے ہیں اور ملک میں آزادیٔ صحافت سکڑ رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی تشویش بجا ہے۔

ان کے بقول گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان مین انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوئی اور خاص طور پر مذہبی اقلیتی برادریوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

یورپی یونین کے پارلیمانی وفد نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا تھا جب حکومت نے سخت گیر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ایک متنازع معاہدہ کیا جس کے تحت جماعت پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے۔

زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ حکومت کا بعض انتہا پسند گروپوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا نرم رویہ بھی ان کے بقول ملک کے اندر اور باہر بعض حلقوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ اگر یورپی یونین نے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ختم کر دیا تو پاکستان کے لیے اقتصادی مشکلات بڑھ سکتی ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اتوار کو ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اکتوبر میں پاکستان کی برآمدات میں 17 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کی برآمدات رواں برس 30 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی اور اس میں ان کے بقول ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 22 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ یورپی یونین پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان کی ٹیکسٹائل منصوعات سب سے زیادہ یورپی یونین کو برآمد کی جاتی ہیں۔

یورپی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین پاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یورپی یونین کو پاکستانی برآمدات کا 75 فی صد سے زائد ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو حاصل ترجیحی تجارت کی سہولت پر کسی قسم کی زد پڑنے کی صورت میں یورپی منڈی میں پاکستانی برآمدات ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کی وازرتِ خارجہ نے یورپی یونین پارلیمان کی رکن کے بیان پر تاحال کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔

قبل ازیں یورپی یونین کے وفد سے ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان جی ایس پی پلس سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز کے مؤثر نفاذ کے لیے پر عزم ہے۔