پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرمین آصف زرداری کے متضاد بیانات کا معاملہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
آصف علی زرداری نے بیان دیا کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن (ای سی پی) نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے اور زور دیا کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کروائے۔
لیکن بلاول بھٹو نے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے مطالبے پر قائم رہتے ہوئے کہا ہے کہ "میں گھر کے معاملات پر آصف زرداری کی بات کا پابند ہوں البتہ پارٹی امور میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے فیصلوں کا پابند ہوں۔"
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ اقتدار کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ بلاول بھٹو آئین کی پاسداری کے نعرے کے ساتھ عوامی مقبولیت چاہتے ہیں۔
'باپ، بیٹے کے طرزِ سیاست میں فرق ہے'
صحافی و تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری پاور پالیٹکس (اقتدار کی سیاست) کے لیے مشہور ہیں جب کہ بلاول بھٹو عوامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ سندھ میں کچھ دباؤ بڑھا تو آصف زرداری نے مصلحت کی سیاست کرتے ہوئے انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کی حمایت کردی۔
وہ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو چاہتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) مخالف بیانیہ اپنایا جائے تاکہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ووٹر کو بھی اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔
امتیاز عالم نے کہا کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان سوچ کا یہ فرق نظر آئے گا کیوں کہ آصف زرداری اقتدار جب کہ بلاول عوام کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کے بھی اپنی والدہ سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے لاہور میں پارٹی کا اجلاس بلا کر والدہ کو شریک چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
ان کے بقول اختلاف رائے کا یہ معاملہ اب اس طرف جا رہا ہے کہ یا تو والد پارٹی کی قیادت جاری رکھیں گے یا بیٹا پیپلز پارٹی کے معاملات سنبھالے گا۔
'یہ نقطۂ نظر کا اختلاف ہے'
سینئر صحافی نذیر لغاری کہتے ہیں کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو میں نقطۂ نظر کا اختلاف ہے جو کہ پہلے بھی بعض مواقعوں پر نظر آتا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں جب کہ بلاول بھٹو آئین کی بات کر رہے ہیں اور انتخابات کے معاملے پر دونوں الگ الگ مؤقف اپنائے ہوئے ہیں۔
نذیر لغاری نے کہا کہ چند سال قبل آصف زرداری نے ایک معاملے کا حوالہ دیتے ان سے کہا تھا کہ بلاول بھٹو بینظیر کا بیٹا ہے اور وہ اس معاملے پر ان کی بات نہیں مان رہا۔
نذیر لغاری کہتے ہیں کہ دونوں کے اختلافات اس نہج تک نہیں جائیں گے کہ دونوں باپ، بیٹا ایک دوسرے کے مدِمقابل آ جائیں، بلکہ افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
دوسری طرف قومی اسمبلی کی تحلیل کو ایک ماہ ہونے کو ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
صدر عارف علوی کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط اور سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں کرنا لازم ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے پر انتخابات کروائے جائیں گے۔
پیر کو صدر عارف علوی نے نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم سے ملاقات کی جس میں ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔
امتیاز عالم نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ 90 روز کے اندر انتخابات کروائے جائیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان کی مقبولیت ہے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ انتخابات کا دارو مدار اب سپریم کورٹ پر ہے تاہم 90 روز میں انتخابات مشکل دکھائی دیتے ہیں۔
نذیر لغاری نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انتخابات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ چاہے اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ یا سیاسی جماعتیں انتخابات سے فرار ممکن نہیں اور نہ ہی اسے طویل عرصے تک التوا میں ڈالا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نگراں حکومت کو زیادہ عرصے تک رکھنے کی کوشش بھی زیادہ کارگر ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔