مگر ان سب حادثوں میں سب سے زیادہ افسوسناک حادثہ ان 16 بچوں کی ہلاکت کا تھا جو گجرات میں ایک سکول بس میں سی این جی سلینڈر پھٹنے سے پیش آیا۔
کل رات گھر پہنچتے ہی جب ٹی وی لگایا تو منہ پر استغفراللہ اور اللہ معافی دے جیسے الفاظ کا ورد شروع ہو گیا۔ ویسے تو ایسا میرے ساتھ اکثر ہی ہوتا ہے مگر آج تکلیف اور اللہ کا خوف کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا۔ ٹی وی پر بہت سی ایسی خبریں دیکھنے کو ملیں جس میں ہلاکتوں کا ذکر تھا۔ کہیں جام شورو میں ہونے والے حادثہ میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد تیز رفتار ٹرک کی زد میں آکر موت کے منہ میں چلے گئے تو کہیں تیرہ میں ہونے والا فضائی حملہ چار لوگوں کی جان لے گیا اور کہیں فلپائن میں فوج اور شدت پسندوں کی جھڑپ 11 افراد کو نگل گئی۔
مگر ان سب حادثوں میں سب سے زیادہ افسوسناک حادثہ ان 16 بچوں کی ہلاکت کا تھا جو گجرات میں ایک سکول بس میں سی این جی سلینڈر پھٹنے سے پیش آیا۔ ماؤں کے جگر گوشے صبح سویرے چمکتے یونیفارم میں ماں باپ کی دعائیں اور بوسے لے کر گھر سے رخصت ہوئے ہوں گے۔ شاید ان میں سے کسی بچے نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہوگی اور ماں نے کلام اللہ پڑھ کر اپنے پیارے کو پھونک مارتے ہوئے اسے شام کو کسی تفریح یا کسی بھی انعام کا وعدہ کر کے سکول جانے کے لیے آمادہ کیا گیا ہوگا۔
دل یہ سوچ کر کٹتا ہے کہ ان والدین کا کیا حال ہو گا جنہیں جھلسی ہوئی لاشوں میں سے اپنے لخت جگر کو پہچاننے جیسی کٹھن آزمائش سے گزرنا پڑا ۔ میں نے سوچا، اطلاع ملتے ہی ماؤں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر روتے اور بلکتے ہوئے رب العالمین سے یہ دعا مانگی ہو گی کہ بچنے والا بچہ اسی کا ہو۔ کئی مائیں یہ سوچ کر پچھتاتی ہوں گی کہ کاش میں آج اسے سکول جانے ہی نہ دیتی۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اس حادثہ کو روکا بھی تو جاسکتا تھا۔ مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ تو نہیں تھا ایسے کئی حادثے روزانہ کی بنیادوں پر رونما ہوتے ہیں۔ دو ماہ قبل شیخوپورہ میں بھی ایسے ہی ایک حادثے نے دو بچوں سمیت تین افراد کی جان لے لی تھی۔ خُود میں نے کتنی مرتبہ لاہور کی سڑکوں پر کئی جھلسے ہوئے رکشے اور گاڑیاں الٹی پڑی دیکھی ہیں۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں لاہور ہائی کورٹ نے گاڑیوں اور دیگر ذرائع آمد و رفت میں لگے گیس سیلنڈر پھٹنے کا نوٹس بھی لیا جس پر اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش گئی کہ مارچ کے ابتدائی دو ہفتوں میں 44 افراد سی این جی سیلنڈر پھٹنے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ان سیلنڈر دھماکوں کی بڑی وجھ ناقص سیلنڈر ہیں کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں 32 لاکھ گاڑیوں وغیرہ میں یہ سی این جی گیس سیلنڈر استعمال کیے جارہے ہیں جن میں سے 35 فیصد سیلنڈر ناقص کوالٹی کے ہیں۔ اوگرا کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھی درخواست کی گئی ہے کہ غیر معیاری سیلنڈر بنانے والی سڑک کنارے قائم کمپنیوں اور گاڑیوں میں سیلنڈر لگانے والے غیر تربیت یافتہ مکینیکوں کو روکنے کے لیےنیا قانون وضع کیا جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر معیاری سیلنڈروں والی گاڑیوں کا چالان تو کیا جاتا ہے مگر انہیں چند پیسوں کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ حکومت ایسی کتنے سنگین واقعات کے بعد قوانین وضع کرے گی؟ اور اگر کر بھی دے تو ان پر عمل درآمد کون کروائے گا؟ کیونکہ عمل درآمد کروانے والی زیادہ تر’افسران‘ کو اپنی جیب میں آتے کڑکتے نوٹوں سے غرض ہے۔ دوسری طرف میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا مفاد پرستی، انسان کے دل و دماغ کو ماؤف اور سارے احساسات کوختم کرکے اسے اتنا سفاک بھی بنا سکتی ہے؟ کہ وہ جانتے بوجھتے موت کا سوداگر بن جاتا ہے۔
2011
ء میں کلر کہار کے قریب ہونے والے حادثے کا کون ذمہ دار تھا، جس نے 40 کے قریب افراد کی جان لی۔ ان میں زیادہ تر سکول کے بچے تھے۔ مانا ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کے اہلکاروں نے ہائی وے پر اس بس کو چیک نہیں کیا مگر فیل بریکوں کے ساتھ 72 سیٹوں والی بس میں 107 بچے اور مسافر سوار کرنے والا تو بس کا ڈرائیور اور سکول انتظامیہ تھی۔ انہیں یہ خطرہ مول لینے سے پہلے اپنی ذمہ داری کا احساس کیوں نہیں ہوا ؟
2010ء میں لاہور کے جناح انڈر پاس سے گزرنے والی اُس بس کا جواب دہ کون ہے جس کی چھت پر سوار آٹھ بچوں میں سے پانچ کے سر کچلے گئے۔ سڑک پر کھڑے ٹریفک وارڈن نے اس بس کو نہیں روکا جو بچوں کو چھت پر سور کیے اس انڈر پاس کی طرف بڑھ رہی تھی جس کی حد اونچائی اس بس کے لیے ناکافی تھی۔۔۔ مگر بس پر بچے کس نے سوار کیے، اور کس نے جانتے بوجھتے حد ِ اونچائی کو نظر انداز کرتے ہوئے بس کو انڈر پاس سے گذارا؟
اسی طرح غیر معیاری گیس سیلنڈر بنانے والے ہمارے ملک میں کھلے عام موت بانٹتے پھر رہے ہیں اور انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے اپنے بچے یا پیارے ان بسوں، رکشوں یا گاڑیوں میں سفر نہیں کرتے۔ خیر مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہئیے۔۔۔ چند روپوں کے منافع کی خاطر اگر اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد کپڑا مارکیٹ کے کچھ بیوپاری کفن کی قیمت بڑھا سکتے ہیں تو ناقص سی این جی سیلنڈر، بس کی فیل بریکیں یا پھر بس کی اوور لوڈنگ تو کو ئی بڑی بات ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ ہم جیسے کسی کے گھر کا چراغ ہی گل ہوگا ، کسی ماں کی گود اجڑ جائے گی یا پھر کوئی عمر بھر کے لیے اپاہج ہوجائے گا ۔۔۔ مگر ہمارے ملک میں بسنے والے کئی ایسے کاروباری تو مدتوں پہلے اپنے ضمیر کو سلا چکے ہیں۔ ان کے اندر انسان نہیں بلکہ کسی درندے کی روح بستی ہے جو معصوم انسانوں کو نگل کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔
مگر ان سب حادثوں میں سب سے زیادہ افسوسناک حادثہ ان 16 بچوں کی ہلاکت کا تھا جو گجرات میں ایک سکول بس میں سی این جی سلینڈر پھٹنے سے پیش آیا۔ ماؤں کے جگر گوشے صبح سویرے چمکتے یونیفارم میں ماں باپ کی دعائیں اور بوسے لے کر گھر سے رخصت ہوئے ہوں گے۔ شاید ان میں سے کسی بچے نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہوگی اور ماں نے کلام اللہ پڑھ کر اپنے پیارے کو پھونک مارتے ہوئے اسے شام کو کسی تفریح یا کسی بھی انعام کا وعدہ کر کے سکول جانے کے لیے آمادہ کیا گیا ہوگا۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں لاہور ہائی کورٹ نے گاڑیوں اور دیگر ذرائع آمد و رفت میں لگے گیس سیلنڈر پھٹنے کا نوٹس بھی لیا جس پر اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش گئی کہ مارچ کے ابتدائی دو ہفتوں میں 44 افراد سی این جی سیلنڈر پھٹنے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ان سیلنڈر دھماکوں کی بڑی وجھ ناقص سیلنڈر ہیں کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں 32 لاکھ گاڑیوں وغیرہ میں یہ سی این جی گیس سیلنڈر استعمال کیے جارہے ہیں جن میں سے 35 فیصد سیلنڈر ناقص کوالٹی کے ہیں۔ اوگرا کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھی درخواست کی گئی ہے کہ غیر معیاری سیلنڈر بنانے والی سڑک کنارے قائم کمپنیوں اور گاڑیوں میں سیلنڈر لگانے والے غیر تربیت یافتہ مکینیکوں کو روکنے کے لیےنیا قانون وضع کیا جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر معیاری سیلنڈروں والی گاڑیوں کا چالان تو کیا جاتا ہے مگر انہیں چند پیسوں کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ حکومت ایسی کتنے سنگین واقعات کے بعد قوانین وضع کرے گی؟ اور اگر کر بھی دے تو ان پر عمل درآمد کون کروائے گا؟ کیونکہ عمل درآمد کروانے والی زیادہ تر’افسران‘ کو اپنی جیب میں آتے کڑکتے نوٹوں سے غرض ہے۔ دوسری طرف میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا مفاد پرستی، انسان کے دل و دماغ کو ماؤف اور سارے احساسات کوختم کرکے اسے اتنا سفاک بھی بنا سکتی ہے؟ کہ وہ جانتے بوجھتے موت کا سوداگر بن جاتا ہے۔
2011
2010ء میں لاہور کے جناح انڈر پاس سے گزرنے والی اُس بس کا جواب دہ کون ہے جس کی چھت پر سوار آٹھ بچوں میں سے پانچ کے سر کچلے گئے۔ سڑک پر کھڑے ٹریفک وارڈن نے اس بس کو نہیں روکا جو بچوں کو چھت پر سور کیے اس انڈر پاس کی طرف بڑھ رہی تھی جس کی حد اونچائی اس بس کے لیے ناکافی تھی۔۔۔ مگر بس پر بچے کس نے سوار کیے، اور کس نے جانتے بوجھتے حد ِ اونچائی کو نظر انداز کرتے ہوئے بس کو انڈر پاس سے گذارا؟
اسی طرح غیر معیاری گیس سیلنڈر بنانے والے ہمارے ملک میں کھلے عام موت بانٹتے پھر رہے ہیں اور انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے اپنے بچے یا پیارے ان بسوں، رکشوں یا گاڑیوں میں سفر نہیں کرتے۔ خیر مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہئیے۔۔۔ چند روپوں کے منافع کی خاطر اگر اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد کپڑا مارکیٹ کے کچھ بیوپاری کفن کی قیمت بڑھا سکتے ہیں تو ناقص سی این جی سیلنڈر، بس کی فیل بریکیں یا پھر بس کی اوور لوڈنگ تو کو ئی بڑی بات ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ ہم جیسے کسی کے گھر کا چراغ ہی گل ہوگا ، کسی ماں کی گود اجڑ جائے گی یا پھر کوئی عمر بھر کے لیے اپاہج ہوجائے گا ۔۔۔ مگر ہمارے ملک میں بسنے والے کئی ایسے کاروباری تو مدتوں پہلے اپنے ضمیر کو سلا چکے ہیں۔ ان کے اندر انسان نہیں بلکہ کسی درندے کی روح بستی ہے جو معصوم انسانوں کو نگل کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔