سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ماہ دوبارہ تاریخ رقم کی، اور وہ یوں کہ وہ پہلے صدر ہیں جن کا دو بار مواخذہ کیا گیا۔ اس بار ان کا مواخذہ، چھ جنوری کو اپنے حامیوں کو یو ایس کیپٹل پر چڑھائی کے لیے اکسانے کے الزام پر کیا گیا تا کہ صدر جو بائیڈن کی انتخابی فتح کی کانگریس سے توثیق کو روکا جا سکے۔
ایوانِ نمائندگان نے 13 جنوری کو نئے مواخذے کی منظوری دے دی، اور اس سے ٹھیک ایک ہفتے بعد، صدر ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت مکمل کر کے اپنے عہدے سے الگ ہو گئے۔ تاہم اب 9 فروری کو سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی باضابطہ کاروائی کا آغاز ہو گا۔، مگر اس کے ساتھ ہی ایک آئینی اختلاف اور تنازع بھی سامنے آیا کہ کیا سینیٹ سابق صدر کے خلاف کاروائی کر کے اِنہیں مجرم ٹھہرا سکتی ہے۔؟
تاہم یہ کوئی علمی سوال نہیں ہے۔ بدھ کے روز، 50 میں سے 45 ریپبلکن سینیٹروں نے حاضری کے وقت اور سینیٹ میں بحث کے دوران، مواخذے کی کاروائی کی آئینی حیثیت پر سوالات اٹھا کر صدر ٹرمپ کے خلاف کاروائی کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی۔
ان کی دلیل یہ تھی کہ جب ایک بار صدر اپنے عہدے سے الگ ہو جاتا ہے تو پھر اس کی حیثیت ایک عام شہری جیسی ہو جاتی ہے، اور اس کے خلاف کاروائی کر کے اُسے مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا، چاہے ایوان سے پہلے ہی اس کا مواخذہ ہو چکا ہو۔ یہ وہ دلیل ہے جو صدر ٹرمپ کے وکلا ان کی با عزت بریت کیلئے استعمال کریں گے۔
صدر ٹرمپ کے حامی ریاست کنٹکی سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن جماعت کے سینیٹر، رینڈ پال کہتے ہیں کہ عام شہریوں کا مواخذہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ مواخذہ عہدے سے الگ کرنے کیلئے ہوتا ہےاور یہاں ملزم پہلے ہی اپنے عہدے سے الگ ہو چکا ہے۔
تاہم یہ سوال کہ کیا سابق صدر کا مواخذہ ہو سکتا ہے ابھی تک جواب طلب ہے، اور ان افراد کا بھی جو اس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں، کہنا ہے کہ اس میں بحث کی گنجائش موجود ہے۔
ری پبلکن قانون سازوں کو مواخذے کی کارروائی کے آئینی اور تاریخی تناظر پر بریفنگ دینے کے بعد، جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے قدامت پسند پروفیسر جانیتھن ٹرلی نے بدھ کے روز اپنے بلاگ میں لکھا کہ اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہے، اور اس سوال پر لکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
پروفیسرجوناتھن ٹرلی، صدر ٹرڑمپ کے پہلے مواخذے کے دوران ریپبلکن گواہ تھے۔
پرنسٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر، کیتھ ویٹنگٹن کا کہنا ہے کہ قانونی ماہرین کے درمیان اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ چند ماہرین قانون نے ٹرمپ کے دوسرے مواخذے اور اس پر موجود اختلاف پر پہلے بھی غور کیا ہے۔
پروفیسر وٹنگٹن کہتے ہیں کہ یہ اُن چند سوالات میں سے ایک ہے جو مواخذے کے اختیار کی ٹھیک حد پر کھڑے ہیں، اور جن لوگوں نے مواخذے کے اختیار پر لکھا بھی، انہوں نے بھی اس مخصوص مسئلے پر لکھنے سے گریز کیا ہے۔
امریکی آئین میں درج ہے کہ امریکہ کے صدر، نائب صدر اور دیگر اعلیٰ سول افسران کو اس صورت میں ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اگر وہ غداری، رشوت ستانی، یا دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے جائیں۔
پروفیسر ٹرلی کہتے ہیں کہ آئین میں درج لفظ صدر سے مراد ہے کہ ایک ایسا شخص جو وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ہو، اس لئے عہدے پر فائز صدر کا ہی مواخذہ ہو سکتا ہے، اور دوسرے مواخذے کی کارروائی کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں بلکہ جو بائیڈن ہوں گے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ایمیریٹس ایلن ڈرشووٹز کا کہنا ہے کہ مواخذے کے مقدمات میں، آئین کہتا ہے کہ عہدے سے ہٹایا جانا اور عہدے پر بحال رہنے کا نا اہل ہونا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عہدے سے ہٹایا جانا یا نااہل قرار دینا۔ دوسرے لفظوں میں نااہلیت سے پہلے ہی یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ہٹایا جانا، اور چونکہ صدر ٹرمپ کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا، اس لئے انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پروفیسر ڈرشویٹز پہلے مواخذے کے دوران، صدر ٹرمپ کے وکیل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین کا متن بظاہر اس بات پر زور دے کر کہتا ہے اس کے تحریر کرنے والوں کے نزدیک مواخذہ، صرف عہدے پر موجود شخص کیلئے استعمال ہو سکتا ہے، اور جب ایک بار اسے ہٹا دیا جائے تو پھر اسے نا اہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے صرف مستقبل میں کسی کو نا اہل قرار دینے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔
ڈیموکریٹ جماعت سے تعلق رکھنے والی، ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی کہتی ہیں کہ جب نائب صدر مائیک پینس نے صدر ٹرمپ کو عہدے سے الگ کرنے کیلئے آئین کی 25ویں ترمیم استعمال کرنے سے انکار کیا، تو پھر ایوان نمائندگان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کا مواخذہ کرتے اور انہیں مجرم ٹھہرائے جانے کی کوشش کریں تا کہ وہ مستقبل میں کسی عہدے کیلئے مقابلے میں نہ آ سکیں۔ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ سن 2024 میں دوبارہ صدر کا انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔