رسائی کے لنکس

ٹرمپ کے ٹرائل کے لیے سینیٹ میں الزامات پر مبنی دستاویز پیش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے ایوانِ زیریں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ایوانِ بالا (سینیٹ) کو باضابطہ طور پر الزامات پر مبنی دستاویزات ارسال کر دی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر اپنے حامیوں کو بغاوت کے لیے اکسانے اور ہجوم کو کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کی ترغیب دینے کے الزامات ہیں۔

چھ جنوری کو اس وقت کے صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملہ کرتے ہوئے وہاں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کے عمل میں رکاوٹ ڈالی تھی۔

بعدازاں مذکورہ اقدام کے خلاف ایوانِ نمائندگان نے سابق صدر ٹرمپ کی مدتِ صدارت مکمل ہونے سے چند روز قبل ہی اُن کے مواخذے کے حق میں قرار داد منظور کی تھی۔

ایوانِ نمائندگان کے ارکان پیر کی شام سینیٹ چیمبر میں آئے اور انہوں نے سابق صدر ٹرمپ کے خلاف دفعات پر مبنی دستاویزات پیش کی۔

اُس موقع پر ایوانِ زیریں کے رکن جیمی راسکن نے ٹرمپ کے خلاف الزامات پڑھتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سیکیورٹی اور حکومتی اداروں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔

سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹرائل کے لیے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے تیاری کے سلسلے میں کچھ وقت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

سینیٹ میں سابق صدر کو مجرم ٹھہرانے یا انہیں الزامات سے بری کرنے کی کارروائی آٹھ فروری سے شروع ہو گی۔

یاد رہے کہ سینیٹ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹرائل ایسے موقع پر شروع ہو رہا ہے جب سینیٹ میں صدر جو بائیڈن کی کابینہ کے ارکان کی منظوری کا عمل بھی جاری ہے۔

سابق صدر ٹرمپ نے اپنے دفاع کے لیے دو وکیلوں کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں جن کے پاس تیاری کے لیے دو ہفتے کا وقت ہو گا۔

بچ بوورز اور ڈیبورا باربر قانون دان ہیں جو کولمبیا اور ساؤتھ کیرولائنا میں اپنی لیگل فرم بھی چلا رہے ہیں۔ دونوں وکلا سینیٹ میں سابق صدر ٹرمپ کے حق میں دلائل دیں گے۔

سینیٹ کے سب سے سینئر رکن ڈیموکریٹک پارٹی کے پیٹرک لیہی نے پیر کو کہا ہے کہ وہ مواخذے کی کارروائی کی صدارت کریں گے۔

مواخذے کی کارروائی آخری مراحل میں داخل
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ غیر جانبدار رہیں اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہی ایوان میں کارروائی کو آگے بڑھائیں۔

امریکی آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صدر کے مواخذے کی کارروائی کی صدارت کرتے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ اب امریکہ کے صدر نہیں اس لیے حکام کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس جان رابرٹ مواخذے کی کارروائی کی صدارت نہیں کریں گے۔

دوسری جانب ری پبلکن سینیٹر جان کورنین نے ٹرائل کے انتظامات اور کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایک سینیٹر کس طرح جج بن کر ٹرائل کی صدارت کر سکتا ہے؟

ٹرمپ کے مواخذے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم ٹھہرانے کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ 100 ارکان پر مشتمل سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50،50 ارکان ہیں۔

سابق صدر کو مجرم ٹھیرانے کے لیے ڈیمو کریٹس کو ری پبلکن پارٹی کے 17 سینیٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے ری پبلکن اراکین مواخذے کے حق میں ہیں۔ بعض ری پبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے صدارتی دفتر میں نہ ہونے کے بعد مواخذے کی کارروائی شروع کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سینیٹ میں اکثریتی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے لیڈر چک شومر نے ری پبلکن سینیٹرز کے تحفظات کے جواب میں پیر کو کہا کہ ہر امریکی تاریخ کے اس خوف ناک باب کو چھپانا چاہتا ہے لیکن اسے چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کا واحد راستہ حقیقی احتساب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ منطق کہ سینیٹ سابقہ حکام کا ٹرائل نہیں کر سکتی تو یہ آئینی طور پر کسی بھی صدر کو جیل سے آزادی کا پروانہ دینے کے مترادف ہے۔

اگر صدر ٹرمپ سینیٹ سے مجرم قرار پاتے ہیں تو وہ دوبارہ کوئی وفاقی عہدہ نہیں سنبھال سکیں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ کی 245 سالہ تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ واحد صدر گزرے ہیں جن کا دو مرتبہ مواخذہ ہوا ہے۔

ایوانِ نمائندگان نے 2019 میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کیا تھا۔ اس وقت ان پر اپنے حریف جو بائیڈن پر دباؤ بڑھانے کے لیے یوکرین سے مدد لینے کا الزام تھا۔ تاہم سینیٹ نے فروری 2020 میں ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG