داعش کے شدت پسندوں کی نظریں اب اٹلی پر ہیں۔ اُنھوں نے اپنے سماجی میڈیا اکاؤنٹس پر جہادی رنگروٹوں پر زور دیا ہے کہ وہ روم پر حملوں کی تیاری کے سلسلے میں لیبیا پہنچیں۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکمت عملی کے اعتبار سے، تنازعے کا شکار یہ شمالی افریقی ملک بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔
انٹرنیٹ پر پروپیگنڈہ کی یہ سرگرمی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اطالوی حکام نے اپنے اہم تاریخی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی اقدامات تیز کر دیے ہیں، جن میں روم اور ملک کے دیگر اہم شہروں کی سڑکوں پر 4800 فوجی تعینات کرنا شامل ہے۔
انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں اخباری دفاتر، سناگاگس اور سفارت خانوں پر حملے ہونے کا ڈر ہے، جب کہ وہ وٹیکن کے گرد و نواح میں بھی سکیورٹی کا اضافی گشت لگا رہے ہیں۔
انتہا پسندوں کی جانب سے گذشتہ ہفتے 21قبطی مسیحیوں کے اجتماعی قتل کے بعد اٹلی میں خوف طاری ہے، جب کہ بتایا جاتا ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے شدت پسند بحیرہٴروم میں لیبیا کے ساحل پر ہیں، جو اٹلی کی سرزمیں سے 480 کلومیٹر (300 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
اطالوی وزیر اعظم، متیو رینزی نے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ لیبیا کو مزید خلفشار سے نکالنے کے لیے اُس کے خلاف مداخلت پر غور کیا جائے۔
اس شمال افریقی ملک میں دو متحارب ملیشیاؤں کی لڑائی نے خلفشار کی صورت مزید پیچیدہ کردی ہے، جن کی طرابلس اور تبروک میں مخالف حکومتیں قائم ہیں، جس کا فائدہ جہادی عناصر اٹھا رہے ہیں۔