نیب ریفرنس: اسحاق ڈار کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

فائل فوٹو

نیب کے وکیل کا موقف تھا کہ اسحاق ڈار کی طبی رپورٹ ایک نجی ڈاکٹر کی رپورٹ ہے جب کہ قانون کے مطابق میڈیکل رپورٹ ہائی کمیشن کے ذریعے موصول ہونی چاہیے تھی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس میں اسحاق ڈار کی حاضری سے ایک دن کے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی ہے۔

عدالت نے نیب کی جانب سے اسحاق ڈار کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی جب کہ ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جمعرات کو اسحاق ڈار کے خلاف آمد سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے وزیرِ خزانہ کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

اسحاق ڈار کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل تین سے چار منٹ پیدل نہیں چل سکتے، ان کی 3 نومبر کو لندن میں انجیو گرافی ہوگی۔ اس لیے عدالت انہیں حاضری سے استثنیٰ دے۔

نیب پراسیکیوٹر نے اسحاق ڈار کو حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس میں کسی بیماری کا ذکر نہیں، گرفتار ملزمان کی بھی انجیو گرافی یہاں سے کرائی جاتی ہے، قندیل بلوچ قتل کیس میں ملزم مفتی عبدالقوی کی انجیو گرافی بھی یہیں پاکستان میں کی گئی۔

نیب کے وکیل کا موقف تھا کہ اسحاق ڈار کی طبی رپورٹ ایک نجی ڈاکٹر کی رپورٹ ہے جب کہ قانون کے مطابق میڈیکل رپورٹ ہائی کمیشن کے ذریعے موصول ہونی چاہیے تھی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت سے اسحاق ڈار کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

البتہ نیب پراسیکیوٹر کی استدعا پر عدالت نے اسحاق ڈار کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کا حکم دے دیا ہے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے سے متعلق چیئرمین نیب کے حکم کی توثیق کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران نیب نے اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تفصیلات پیش کیں۔

نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے مؤقف اختیار کیا کہ اسحاق ڈار کی بیرونِ ملک بھی جائیداد ہے جس کی دستاویزات دستیاب نہیں، چیئرمین نیب کی جانب سے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کیے گئے۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کے کچھ اکاونٹس فعال ہیں کچھ غیر فعال ہیں۔ غیر فعال اکاؤنٹس ختم نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی وقت فعال ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کسی بھی مرحلے پر ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن اس کی عدالتی توثیق ضروری ہے۔

اسحاق ڈار کی معاون وکیل عائشہ حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی طرف سے جواب تیار ہے لیکن دستخط نہ ہونے کے باعث جمع نہیں ہوسکا، تاہم اسحاق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم درست نہیں۔ ریفرنس دائر کرنے کے بعد چیئرمین نیب اثاثے منجمد کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، ریفرنس نہ ہو تو انکوائری کے مرحلے میں اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔

عائشہ حامد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کی اجازت کے بعد معلوم ہوگا کہ اسحاق ڈار کب واپس آئیں گے، ان کے دل کے کیے جانے والے ٹیسٹ سے معلوم ہوگا کہ ان کی سرجری ہونی ہے یا نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے اسحاق ڈار کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت آٹھ نومبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے اسحاق ڈار کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔