اس رپورٹ کی آڈیو سننے کے لیے نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کیجیئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شام اور عراق میں مبینہ طور پر بے رحمی اور ظلم کا نیا باب شروع کرنے والے ریاست اسلامیہ نامی گروہ کو - جس کے جنگجووں کی تعداد سی آئی اے کے اندازے کے مطابق 31 ہزار ہو چکی ہے - امریکہ کے صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے اپنے اہم خطاب میں نہ تو اسلامی تسلیم کیا ہے اور نہ ہی ریاست۔
لیکن یہ حقیقت کہ یہ گروہ اپنی نام نہاد ریاست کا اعلان سیاہ رنگ کے ایسے جھنڈے کو لہرا کر کر رہا ہے، جس پر اسلام کے ماننے والوں کا پہلا کلمہ درج ہے، کیا کسی بڑے خطرے کو دعوت دیتی محسوس ہو تی ہے؟
واشنگٹن کی 'نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی' سے منسلک تجزیہ کار اور 'طالبان ریوائیول' نام کی کتاب لکھنے والے ڈاکٹرحسن عباس کہتے ہیں کہ کافی سے زیادہ۔۔
آئی ایس آئی ایل یا داعش کی حقیقت دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔حسن عباس
حسن عباس کی رائے میں ’’یہ نیا دہشت گرد گروپ آئی سیس یا آئی سیل، جو شام سے آیا ہے، اور عراق میں اسلامی ریاست کا خواب پیش کررہا ہے۔ اس کی حقیقت دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ مجرمانہ گینگز ہیں، اور اسے پاور پلے کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ وہ بے سمت لوگ ہیں جو شام میں لڑنے گئے تھے، اسلام کے بارے میں ان کا جو نظریہ اور نکتہ نظر ہے وہ بہت ہی مبہم ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کی جو ظاہری شکل و صورت ہے وہ تو مسلمانوں والی ہے لیکن اسلام کے جو رویے ہیں، اور اسلام کی جو تعلیمات ہیں ،ان کا ان سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لئے جو ان کا جھنڈا دیکھتے ہیں، سیاہ جھنڈا ، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ اس کے اوپر لکھا ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ایک نئی اسلامی ریاست تو ان کے ذہن میں فورا وہ پرانی اسلامی ریاست کا خواب سامنے آ تا ہے یا وہ تاریخ ان کے سامنے آتی ہے، جہاں اسلامی ریاست دنیا پر راج کرتی تھی، اور اس نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، اور چاہے وہ مغل تھے، چاہے وہ عثمانیہ سلطنت کے تھے، چاہے صفوی تھے، چاہے فاطمید تھے ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک بہت تابناک ماضی جڑا ہوا ہے۔ اس لئے ایک عام آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ شائد یہ مسلمانوں کی کوئی زبردست تحریک ہے، اور انہیں فوری طور پرپتہ نہیں چلتا کہ وہ لوگ اصل میں انسانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں، اور ان کا پورا نظریہ فرقہ واریت پر مبنی ہے۔‘‘
اس دوران دہشت گردی کے عالمی منظرنامے پر ایک اور ارتعاش، بہت حد تک کمزور پڑ جانے والی القاعدہ نے جنوبی ایشیائی ملکوں میں اپنی نئی شاخ کے قیام کا اعلان کر کے پیدا کر دیا ہے۔۔۔ تو کیا اسے صرف القاعدہ کی طرف سے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش قرار دے کر رد کیا جا سکتا ہے؟ یااس میں کچھ حقیقی پریشانی کی بات بھی ہے؟
آئی ایس آئی ایل کی کامیابیوں کو القاعدہ امید کی علامت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔مائیکل کوگل مین
واشنگٹن کے 'ووڈرو ولسن سینٹر' کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں القاعدہ اسلامک اسٹیٹ کی کامیابی کو امید کی علامت کے طور پر دیکھ رہی ہے کہ شائد وہ بھی اکٹھے ہو کر علاقے میں زیادہ تباہی پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کی توقع کم ہے کہ آئی ایس آئی ایل کے ابھرنے سے پاکستان میں کوئی فوری یا براہ راست خطرہ موجود ہے یا اسلامک اسٹیٹ اور پاکستان کے اندر کوئی تعلق یا اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔ اصل نیتجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان کے جنگجو گروپ، جو پچھلے کچھ مہینوں سے کافی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، اسے امید کی علامت کے طور پر دیکھیں گے، کہ وہ بھی ایسی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
کوگل مین کے خیال میں عراق میں شدت پسندگروہ آئی ایس آئی ایل کے جڑ پکڑنے کی وجہ پچھلے دو سال میں پیدا ہونے والی فرقہ واریت کی لہر ہے، جسے بد امنی اور عدم استحکام نے مزید بڑھاوا دیا۔ لیکن ان کے خیال میں پاکستان میں کوئی شدت پسند گروہ وہ سب نہیں کر سکتا، جو آئی ایس آئی ایل نے عراق اور شام میں کیا ہے۔
’’میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ایک طالبان لیڈر عمر خالد خراسانی اسلامک اسٹیٹ اور خاص طور پر اس کے لیڈر ابوبکر بغدادی سے مماثلت رکھتا ہے، کیونکہ وہ پاکستان کے تمام دیگر طالبان رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ سفاک اور بے رحم ہے۔ یعنی وہ بھی سر قلم کرتا ہے، اپنے مظالم کی نمائش کے لئے، ان کی گنتی کرنے کے لئے، خوبی سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے ، یعنی بہت حد تک اسلامک اسٹیٹ جیسا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ گروہ کافی حد تک چھوٹا اور نیا ہے، اور باوجود اس کے کہ پاکستان میں کسی حدتک فرقہ ورانہ تقسیم موجود ہے، یعنی وہ عنصر جس نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کو جڑ پکڑنے میں مدد دی، اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس نے ملک کے بنیادی ڈھانچے تک سرائیت کیاہے،اس لئے میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں دہشت گرد گروہ وہ کر سکتے ہیں ،جوعراق اور شام میں ہو رہا ہے۔"
پاکستان کی فوج عراق اور شام کی فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور موثر ادارہ ہے۔ مائیکل کوگل مین
مائیکل کوگل مین نے کہا کہ ’’آپ چاہے پاکستان کی فوج کو کچھ بھی کہہ لیں، پاکستان کی فوج شام اور اور عراق کی فوج کے مقابلے میں کہیں مضبوط اور موثر ادارہ ہے۔ شام اور عراق اپنی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کئی مسائل کا شکار ہیں ، دونوں خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں ۔لیکن پاکستان میں صورتحال ایسی نہیں ہے، اس لئے جماعت الاحرار یا عمر خالد خراسانی کا جنگجو گروہ پاکستان میں بہت نقصان بھی کرسکے، تو بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتا، جیسا اسلامک اسٹیٹ عراق اور شام میں کر رہا ہے۔
تاہم ڈاکٹر حسن عباس کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں ان کے خیال میں آئی ایس آئی ایل یا داعش کے نظریات کے پھیلاؤ کے لئے پاکستان اور افغانستان میں حالات سازگار ہیں،اور انہیں پھیلنے سے روکنے کے لئے، سرکاری سطح پر جس توجہ اور ارتکاز کی ضرورت ہے وہ کہیں موجود نہیں۔
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ ’’چونکہ ایسا کوئی بھی نیا آئیڈیا کچھ نئے لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور وہ کمر بستہ ہوکر ہتھیار اٹھالیتے ہیں، کہ انہیں زندگی میں نہ کوئی نوکری مل رہی ہے ، نہ کھانے کو مل رہا ہے ۔ ان کے لئے یہ ایک پرکشش آئیڈیا ہے کہ ہم جہاد کر کے زندگی بنا لیں ۔۔یعنی ایک تو جہاد کے نام پر وہ جس کے پاس بھی کچھ موجود ہے، اسےماردیں گے ، دوسرا یہ کہیں گے کہ اچھا ہم مارے گئے ، شہید ہو گئے، توبھی جنت میں جائیں گے۔"آئی ایس آئی ایل یا داعش کے نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سرکاری سطح پرجس توجہ اور ارتکاز کی ضرورت ہے، وہ کہیں موجود نہیں۔حسن عباس
ڈاکٹر حسن عباس کے بقول ’’جتنا محدود علم اور جتنی بے سمتی یا ڈائریکشن لیس نیس، بعض مذہبی حوالوں سے پاکستان اور افغانستان کے بعض طبقوں میں آچکی ہے، وہ بنیاد فراہم کرتی ہے، آئی ایس آئی ایل جیسے نظریات کو پنپنے کے لئے ۔ لیکن اس بات پر پاکستان اور افغانستان کے سربراہان، حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جتنا پریشان ہونا چاہئے ، ویسی پریشانی ابھی نظر نہیں آرہی۔
ڈاکٹرحسن عباس کے بقول، ’’اگر پاکستان اورافغانستان کے حالات ٹھیک نہ ہوئے، اگر پاکستان کے سول ملٹری تعلقات بہتر نہ ہوئے، تو مجھے خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان میں طالبان اور القاعدہ اس کا فائدہ نہ اٹھا لیں۔ یہ کوئی مہینوں اور سالوں کی بات نہیں، یہ ہفتوں کی بات ہے‘‘۔
دہشت گرد گروہ جب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں تو مل کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنا لیتے ہیں، اور ایسا اشتراک پاکستان میں سرگرم شدت پسندوں اور آئی ایس آئی ایل کے درمیان قائم ہو سکتا ہے۔حسن عباس
حسن عباس کہتے ہیں کہ ’’القاعدہ تو آج تک کہتا رہا ہے کہ ہم ایک Larger support Base بنانا چاہتے ہیں، جبکہ آئی ایس آئی ایل نے ایسا کر دکھایا ہے، ان کی جو آئیڈیالوجی ہے، ان کے اندر جو انتہا پسندی ہے، جو ان کی BIGOTRY (عدم برداشت) ہے وہ تو بالکل ایک جیسی ہے، ان کی سب کتابیں جو ہیں ، جن سے یہ اپنے خیالات کو تقویت بخشتے ہیں، وہ سب ایک ہی قسم کی چیزیں ہیں، تو آئی ایس آئی ایل اور القاعدہ کی دشمنی میرے خیال میں کچھ تھوڑے دن کے لئے ہی ہوگی، دکھانے کی ہوگی، اور سامنے کی ہوگی، آخر کار یہ دونوں اپنی قوتوں کو یکجا کریں گے یا کم از کم ہمارے جو قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، انٹیلی جنس اور عکسری ادارے ہیں ۔ جو ان پر نظر رکھتے ہیں، انہیں یہی غور کرنا چاہئے کہ یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں، کہ ماضی میں ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں ، چاہے وہ پاکستان ہو یا افغانستان، چاہے وہ دنیا کے بڑے ملکوں کے اہم اور حساس ادارے ہوں، کہ وہ بعض دفعہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد گروہوں میں اگر توڑ پھوڑ کی جائے، ان کے درمیان دشمنیاں پیدا کی جائیں اور یہ آپس میں لڑ پڑیں تو یہ بہتر ہوگا۔ میرے خیال میں ایسا کرنا ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ جب وہ آپس میں لڑتے ہیں تو ان کے درمیان انڈر سٹینڈنگ بڑھتی ہے ، اور وہ ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کرتے ہیں۔۔
’’آپ کو یاد ہوگا کہ تحریک طالبان کے کچھ لوگوں نے پاکستانی حکومت سے بات چیت شروع کی تھی۔ اسی دوران پشاور میں چرچ پر بہت بڑا حملہ ہو گیا۔اس کے بعد اسلام آباد میں بڑا دہشت گرد حملہ ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ جماعت الاحرار نام کا ایک نیا دہشت گرد گروپ سامنے آگیا اور اس نے کہا کہ اگر تحریک طالبان سے بات ہو سکتی ہے ، تو ہم بھی تو ہیں ۔ جس گروپ کو آپ انگیج نہیں کریں گے، وہ دہشت گردی میں اضافہ کرے گا۔ اور مزیدریڈیکلز کو اپنی طرف لے جائے گا‘‘۔
شدت پسندی کا بیج، تعلیم اور جمہوریت کی کمی کے ماحول میِں ، وہ دہشت گرد پیدا کرتا ہے، جنہیں دنیا میں کہیں القاعدہ ، کہیں طالبان اور کہیں آئی ایس آئی ایل کہا جا رہا ہے۔حسن عباس
ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہےکہ شدت پسندی کا بیج، تعلیم اور جمہوریت کی کمی کے ماحول میِں، وہ دہشت گرد پیدا کرتا ہے، جنہیں دنیا میں کہیں القاعدہ ، کہیں طالبان اور کہیں آئی ایس آئی ایل کہا جا رہا ہے۔ اور اس خطرے سے نمٹنے کا درست طریقہ ان کے خیال میں، مسلمان ملکوں میں تعلیم کا فروغ اور حقیقی جمہوریت کا قیام ہے ، تاکہ معاشرے کے ہر طبقےمیں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کا فائدہ اور نقصان بھی اسی میں ہے، جس میں ان کے ملک کا فائدہ اور نقصان ہے۔