حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں 'زینبیون بریگیڈ' نامی عسکریت پسند تنظیم کو کالعدم قرار دیا ہے۔ اس تنظیم پر ایران کی ایما پر پاکستان کے شیعہ نوجوانوں کو شام کی خانہ جنگی میں دھکیلنے کا الزام ہے۔
زینیبیون بریگیڈ پر پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے زینبیون بریگیڈ پر پابندی کا نوٹی فکیشن 11 اپریل کو منظر عام پر آیا ہے۔ تاہم نوٹی فکیشن کے اس کے اجرا کی تاریخ 29 مارچ درج ہے۔
وزارتِ داخلہ نے مذکورہ تنظیم کو ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کی بنیاد پر 'زینبیون بریگیڈ' پر پاپندی کی سفارشات 2022 کے اواخر میں موصول ہوئی تھیں۔
میڈیا سے ممانعت کی بنیاد پر وفاقی وزارتِ داخلہ کے اہلکار نے وائس اف امریکہ کو نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت اس تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ وزارت نے قانون نافذ کرنے والی مختلف ایجنسیوں کی مدد سے 'زینبیون بریگیڈ' سے متعلق معلومات پہلے ہی اکٹھی کرلی تھیں۔
خیال رہے کہ جولائی 2022 کو اُس وقت کے وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے سینیٹ اجلاس میں بتایا تھا کہ 2019 سے 2021 تک ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث 23 فعال شدت پسند تنظیموں میں 'زینبیون بریگیڈ' بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: ایران نے مشرقی شام میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کر دیاوفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے والے ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے بھی 'زینبیون بریگیڈ' کا نام اپنی ویب سائٹ پر موجود کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
زینبیون بریگیڈ کیسے بنی؟
زینبیون بریگیڈ کی تشکیل اور بنیادی مقاصد جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے متعدد باخبر افراد، ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران سے بات چیت کے ساتھ ساتھ تنظیم کے جرائد کا بھی مطالعہ کیا ہے۔
زینبیون بریگیڈ کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ ملیشیا گروپ ہزاروں کے قریب شیعہ پاکستانی جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو شام میں ایران کے اتحادی صدر بشارالاسد کی جانب سے داعش سمیت باغیوں سے برسرِپیکار رہا۔
البتہ زینبیون بریگیڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ تنظیم کا مقصد شام میں شیعہ مقدم مقامات کا تحفظ تھا جنہیں عالمی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے شدت پسندوں سے خطرہ تھا۔
واضح رہے کہ 2011 میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف حکومت مخالف مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ مسلح خانہ جنگی کی صورت حال اختیار کر گیا تھا جب کہ 2013 میں خطے میں وجود میں آنے والی شدت پسند تنظیم داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی 'خلافت' قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
SEE ALSO: شام کی جنگ میں حصہ لینے والے دو افراد کراچی سے گرفتار، کیا یہ گروہ پاکستان میں بھی فعال ہے؟ایسی صورت حال میں ایران اور روس نے بشارالاسد کے حق میں حالات کو بدلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے باغیوں اور جہادیوں کے خلاف کارروائیوں میں شام کی حکومت کا ساتھ دینا شروع کیا۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کا مطالعہ کرنے والے شبیر حسین طوری کے مطابق شام میں خانہ جنگی اور باغیوں کی جانب سے شیعہ مقدس مقامات پر حملوں کے بعد ان کی حفاظت کے لیے ایران کی ایما پر پاکستان اور افغانستان سمیت مختلف ممالک سے شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کیے جانے کا عمل شروع ہوا۔
اس سلسلے میں افغانستان کی سطح پر "فاطمیون بریگیڈ" جب کہ پاکستان کی سطح پر 'زینبیون بریگیڈ' نامی تنظیم تشکیل دی گئی۔
جنوری 2019 میں امریکہ کی وزارتِ خزانہ نے " ایرانی حکومت کی جانب سے دہشت گردی اور بدامنی برآمد کیے جانے کے لیے استعمال ہونے والے غیر قانونی نیٹ ورک کو بند کرنے" کی کاوشوں کے طور پردونوں تنظیموں پر پاپندی عائد کر دی تھی۔
پاکستان سے شیعہ نوجوانوں کی بھرتیاں
شام اور عراق میں داعش سے لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے 'زینبیون بریگیڈ' کے پلیٹ فارم سے شائع کتابچے "ہم تیرے عباس یا زینب" میں متعدد نوجوانوں کی کہانیاں لکھی گئی ہیں۔
ان کہانیوں میں جنگجوؤں کے والدین اور رشتہ داروں سے بات چیت کی گئی ہے۔
فارسی سے اردو میں ترجمہ کیے گئے اس کتابچے کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی کیے گئے زیادہ تر شیعہ نوجوانوں کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے پارا چنار، کراچی اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔
زینبیون بریگیڈ کے ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی تدفین بھی ایران کے مذہبی شہر قم میں کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کتابچے کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ نوجوان شام میں بی بی زینب کے روضے سمیت شیعہ مقدس مقامات کو داعش کے حملوں سے بچانے کے لیے مذہبی فریضہ سمجھ کر لڑنے گئے اور اس عمل میں انہیں والدین کی حمایت حاصل رہی۔
وائس اف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے شبیر حسین طوری نے کہا کہ 2015 کے دوران زینبیون بریگیڈ میں بھرتی کے لیے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی جب کہ بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی عمریں بھی 20 سے 30 سال کے درمیان ہوتی تھی۔
شام کی لڑائی میں مارے جانے والے زینبیون بریگیڈ کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے پاکستانی نوجوانوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں۔ البتہ شیعہ تنظیموں سے وابستہ باخبر افراد کے مطابق یہ تعداد لگ بھگ 500 کے قریب ہے۔
پاکستان میں کافی عرصے تک خاموشی
پاکستان میں 'زینبیون بریگیڈ' کی موجودگی اور پاکستانی شیعہ نوجوانوں کو شام کی لڑائی کے لئی بھیجے جانے کے حوالے سے حکومت اور شیعہ تنظیموں کی سطح پر کافی عرصے تک خاموشی رہی۔
البتہ 2017 میں کراچی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شام کی لڑائی سے واپس آنے والے شیعہ نوجوانوں کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے واقعات کے بعد ملک میں 'زینبیون بریگیڈ' کی موجودگی کا پتا چلا۔
شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کی رہائی کے لیے کراچی کی سطح پر 'وائس فار شیعہ مسنگ پرسنز' کے پلیٹ فارم سے شیعہ تنظیموں نے مہم چلائی جو شروع میں ان نوجوانوں کے 'زینبیون بریگیڈ' یا شام کی لڑائی سے ان نوجوانوں کے تعلق کی سختی سے ترید کرتے تھے۔
شیعہ تنظیموں کا مؤقف تھا کہ شیعہ نوجوانوں کو عراق اور ایران کی زیارتوں سے واپسی پر غائب کیا گیا ہے۔
ایک لاپتا شیعہ نوجوان کے بھائی زاکر حسین نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ"1980 سے لے کر اب تک افغانستان میں جہاد کے نام پر ہزاروں سنی پاکستانی نوجوان لڑنے گئے مگر انہیں کسی نے شدت پسند یا مجرم قرار نہیں دیا۔ مگر چند درجن شیعہ نوجوان شام میں شیعہ مقدس مقامات کی حفاظت کے مذہبی فریضے کے تحت گئے تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر غائب کردیا گیا۔"
زینبیون بریگیڈ پر پاپندی اس وقت کیوں؟
اسلام اباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ زینبیون بریگیڈ پر حالیہ پاپندی کو عالمی سیاست خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2021 میں ہی زینبیون بریگیڈ پر پاپندی عائد کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کافی شواہد موجود تھے مگر اب ایسے وقت میں تنظیم پر پاپندی عائد کرنے کے عمل کو خطے میں جاری کشیدگی سے ہی جوڑا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے زینبیون بریگیڈ پر پابندی ایسے موقع پر لگآئی ہے جب ایران عالمی سطح پر دیگر ممالک خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں اپنے پراکسی نیٹ ورکس کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔
سیکیورٹی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ شام کی لڑائی میں پاکستانیوں کی شمولیت پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے داعش کی مقامی شاخ 'داعش خراساں' نے جنوری 2021 میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ "یہ حملہ پاکستانی شیعہ نوجوانوں کی شام میں زینبیون اور فاطمیون کی ملیشیاؤں میں شمولیت کے بدلے میں کیا گیا ہے۔"
SEE ALSO: دھرنا ختم ہو گیا مگر جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوااسی طرح 2017 میں لشکر جھنگوی عالمی نامی ایک فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیم نے پارا چنار میں سبزی منڈی میں خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ "یہ حملہ بشارالاسد کی حمایت کرنے پر پاکستانی شیعہ کمیونٹی کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا ہے۔"۔
پارا چنار خودکش حملے میں شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 25 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خدشہ ہے کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستان واپس آنے والے ارکان ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی نئی لہر کو جنم دے سکتے ہیں۔
حالیہ سالوں میں سندھ پولیس خصوصاً کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی کے واقعات میں زینبیون بریگیڈ سے وابستہ ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سندھ کے سی ٹی ڈی کی ریڈ بک کے تازہ ترین شمارہ میں مطلوب دہشت گرد ملزمان کی ایک فہرست میں زینبیون بریگیڈ کے چار عسکریت پسندوں کے نام شامل کیے گئے ہیں۔
رواں برس جنوری میں سی ٹی ڈی سندھ نے 2019 میں مذہبی اسکالر مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں 'دشمن' انٹیلی جینس ایجنسی کے لیے کام کرنے والے اور زینبیون بریگیڈ سے منسلک ایک اہم عسکریت پسند کو کراچی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حکومتِ پاکستان 'زینبیون بریگیڈ' سے قبل دو غیر معروف تنظیموں کو پاکستانی شیعہ نوجوانوں کو لڑنے کے لیے بیرونِ ملک خصوصاً شام بھیجنے کے الزامات کے تحت پاپندی عائد کرچکی ہے۔
ان تنظیموں میں انصارالحسین نامی تنظیم پر دسمبر 2016 اور خاتم الانبیا نامی تنظیم پر اگست 2020 میں پاپندی عائد کی گئی تھی۔
پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے زینبیون بریگیڈ پر پاپندی عائد کرنے کے بعد ملک میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی تعداد 79 ہو گئی ہے۔
سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001 میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے پہلی بار لشکرِ جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان نامی تنظیموں پر فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام پر پابندی عائد کی تھی۔
پاکستان میں اب تک کالعدم قرار دی جانے تنظیموں میں فرقہ وارانہ و علیحدگی پسند تنظیمیں، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال جہادی گروہ، طالبان کے دھڑے، عالمی تنظیموں القاعدہ، داعش اور ان سے منسلک تنظیمیں، طلبہ گروہ اور جرائم پیشہ گینگ، فلاحی اداروں سے وابستہ تنظیمیں شامل ہیں۔