اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوی بند کرائے جائیں۔ خادم رضوی خون کیسے معاف کر سکتے ہیں؟ تحریکِ لبیک کا دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے لیے۔ بتایا جائے کہ معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ ریمارکس پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں کاغذاتِ نامزدگی میں موجود ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی اور فیض آباد دھرنے کےخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔
سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس صدیقی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا دھرنے والوں سے حکومت کے معاہدے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس بات کا فوری جواب نہیں دے سکتا اور عدالت وقت دے تو جواب داخل کرادیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا معاہدے کی قانونی حیثیت پرکھنے کے لیے دو تجاویز دیں جن کے تحت معاہدے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیرِ بحث لایا جائے، یا پھر وفاق اور ثالث معاہدے کی قانونی حیثیت کو پرکھیں۔
اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ میں معاہدہ زیرِ بحث لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو خود دیکھیں گے۔ دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لیا ہے۔ معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کے لیے وقت درکار ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنا قائدین اور منتظمین خود توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے۔ معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں؟ مجروح میں ہوا، زخمی میں ہوا، ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی؟ عدالت اس معاہدے کی توثیق نہیں کرسکتی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پولیس والوں کو دھرنے میں مارا گیا۔ ان کے بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ انہیں چار ماہ کی اضافی تنخواہیں دینی چاہئیں۔ جب تک ایک ایک پولیس والے کو سہولتیں نہیں دی جاتیں، یہ مقدمہ ختم نہیں ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریاست کا فرض ہے کہ ہر بندے کی نگہداشت ہو۔ پولیس والوں کے ساتھ جو ہوا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اس کا کیا ہو گا؟
اسلام آباد انتظامیہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے دھرنے سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرادی گئیں جب کہ بیرسٹر ظفراللہ نے ختمِ نبوت حلف نامے میں ترمیم کی تحقیقات سے معذرت کر لی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرسٹر ظفراللہ کو معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیا تھا۔ کیس کی مزید سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ فیض آباد میں ایک مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کے تین ہفتوں تک جاری رہنے والے دھرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
گزشتہ سماعت پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرے والوں کے ساتھ حکومت کے معاہدے میں فوج کے شامل ہونے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے سخت تنقید کی تھی اور آخر میں کہا تھا کہ اس تنقید کے بعد یا تو وہ مار دیے جائیں گے یا غائب کردیے جائیں گے۔