اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر حکام پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر حکومت سے ختمِ نبوت قانون میں تبدیلی سے متعلق راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ، وزارت دفاع سے دھرنا مظاہرین سے ہونے والے معاہدے میں آرمی چیف کا نام استعمال کرنے اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے وائرل آڈیو کا پتہ چلانے والے آلات سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی پہلے ہی چاہتی ہے کہ آئی بی کو ان کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ قومی خزانے پر بوجھ کی بنیاد پر محکمے کو بند کرنے کا حکم کیوں نہ دے دیں؟ اس معاملے کو کارپیٹ کے نیچے دبانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
جمعے کو ہونے والی سماعت کے دوران ختمِ نبوت قانون میں تبدیلی سے متعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سیکرٹری دفاع رپورٹ میں بتائیں کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟
دورانِ سماعت ڈی جی آئی بی دھرنے سے متعلق وائرل ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں رپورٹ پیش نہ کر سکے جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
ڈی جی آئی بی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہیں جس سے یہ پتہ چلایا جا سکے اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے۔
اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا آپ کیسے انٹیلی جنس سربراہ ہیں؟ آپ کو وہ بات بھی معلوم نہیں جو عام آدمی بھی جانتا ہے۔ گر آپ کو یہ بات معلوم نہیں تو آپ کس بات کے انٹیلی جنس سربراہ ہیں؟ کیا آپ اہم شخصیات کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا کام کرتے ہیں؟
جسٹس شوکت عزیز نے ڈی جی آئی بی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی دہشت گرد کی آواز کا موازنہ کرانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کرتے ہیں؟ اس پر ڈی جی آئی بی نے استدعا کی کہ آپ حکم دے دیں کہ آئی بی کو آواز کا موازنہ کرنے کے جدید آلات لے کر دیے جائیں۔
تاہم عدالت نے ریمارکس دیے کہ "میں یہ حکم کیوں نہ دوں کہ قومی خزانے پر بوجھ محکمے کو بند کر دیں؟ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) تو پہلے ہی چاہتی ہے کہ آئی بی کو ان کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔"
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنا دینے والے تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ علامیہ خادم رضوی کا نام لیے بغیر اپنے ریمارکس میں کہا کہ موصوف نے فیض آباد میں بیٹھ کر عدلیہ کی تضحیک کی۔ چیف جسٹس پاکستان کا نام لے کر بکواس کی۔ اور آپ بس راضی نامہ کر کے بیٹھ گئے کہ جنرل صاحب نے دستخط کر دیے۔
عدالت نے ڈی جی آئی بی کو آئندہ سماعت پر تحریری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ وائرل آڈیو کا پتہ کیوں نہیں چلا سکے؟ یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے۔
عدالت نے حکومت کو ختمِ نبوت قانون میں تبدیلی سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ اور وزراتِ دفاع سے دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام استعمال کرنے پر رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ کیس کی سماعت 12 فروری کو دوبارہ ہوگی۔
اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختمِ نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف گزشتہ سال نومبر میں دھرنا دیا تھا جو کئی ہفتے جاری رہا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے جس پر عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بعد ازاں 27 نومبر کو حکومت نے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے جن میں دورانِ آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
اس معاہدے پر پاکستان کی فوج کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر کے دستخط بھی بطور ضامن موجود تھے جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس پر برہمی کا اظہار بھی کیا تھا۔