اسلام آباد ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمٰن کے ’آزادی مارچ‘ اور ممکنہ دھرنے کے خلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ غیر مسلح افراد کا پرامن احتجاج ان کا آئینی حق ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور ممکنہ دھرنے کے خلاف وکیل ریاض حنیف راہی اور لال مسجد سے تعلق رکھنے والی شہدا فاؤنڈیشن کے حافظ احتشام کی درخواستوں کی سماعت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ کے استفسار پر درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے، اس مارچ پر پابندی لگائی جائے۔
عدالت نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں؟ جس پر ریاض حنیف راہی نے جواب دیا کہ میں عام شہری کے طور پر پیش ہوا ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں احتجاج کا حق حاصل نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی کوئی عدالت احتجاج کے حق کو ختم نہیں کر سکتی۔
عدالت نے ’آزادی مارچ‘ کے خلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے معاملہ مقامی انتظامیہ کے سپرد کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ دھرنے کی اجازت سے متعلق درخواست کو قانون کے مطابق نمٹائے۔ احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
بعد ازاں اس فیصلے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ غیر مسلح افراد کا پر امن احتجاج ان کا آئینی حق ہے۔ آئین اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ قانون پسند شہریوں کو پر امن احتجاج کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن احتجاج سے دیگر شہریوں کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو پابند کرنے کے لیے کچھ شرائط اور پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ احتجاج کی جگہ مختص کرنے اور مارچ میں شامل افراد کے لیے روٹ متعین کرنے کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ریاست غیر معمولی حالات میں قومی سلامتی کے معاملے پر کسی بھی فرد کو احتجاج کا حق استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ پرامن اور غیر مسلح رہیں اور عائد کردہ شرائط پوری کریں۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کی اجازت دینے کا اختیار صرف انتظامیہ کے پاس ہے۔ اس کام میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔
یاد رہے کہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں ’آزادی مارچ‘ اور دھرنے کا اعلان کیا ہوا ہے جس کی حمایت اپوزیشن کی مختلف جماعتوں نے بھی کی ہے۔
وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا اسلام آباد میں دھرنا خودکشی کے مترادف ہو گا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اعلان کر چکے ہیں کہ مارچ کے شرکأ کو خیبر پختونخوا سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ البتہ وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ مولانا سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔