آج کی جدید سائنس کی بنیاد صدیوں پہلے کے مسلمان سائنس دانوں اور ریاضی دانوں نےان علوم میں اپنی تحقیق اور ایجادات کے ذریعے رکھی تھی۔ ساتویں صدی سے سترہویں صدی کے دوران مسلمان سائنس دانوں کی ایجادات کو متعارف کرانے کے لیے ان دنوں ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں ایک نمائش جاری ہے۔ جس میں ایک سو ایک ایسی ایجادات کو رکھا گیا ہے جن میں سے بعض آج بھی ہمارے استعمال میں ہیں۔
مغرب میں استعمال کیے جانے والے اعداد کے جدید نظام کی بنیاد مسلمان ریاضی دانوں نے قرون وسطیٰ کے زمانے میں ڈالی تھی جب مسلم دنیا سپین سے چین تک پھیلی ہوئی تھی۔
حال ہی میں مصر میں چلائی جانے والی ایک آن لائن تحریک کے روح ورواں وہیل گھونم ،جو گوگل کمپنی میں بھی کام کر چکے ہیں ، اس نمائش میں موجود تھے۔
گھونم کو ایک کامیاب تحریک چلانے پر جان ایف کینیڈی لائبریری فاؤنڈٰیشن کی جانب سے ایک ایوارڈ بھی دیا گیاہے۔
انہوں نے اس انقلابی تحریک میں مدد فراہم کی تھی جس کے نتیجے میں مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت 18 دن کے احتجاج کے بعد ختم ہو گئی تھی۔
وہیل گھونم کہتے ہیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے مصر کے انقلاب میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ کام کرسکتے ہیں جو ماضی میں ناممکن تھے۔
گھونم کا کہنا ہے کہ مصر جیسے ملک میں اس ٹیکنالوجی نے لوگوں کے آپس میں رابطوں کومضبوط کیا۔ اور فیس بک جیسی ویب سائٹس نوجوانوں کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم کی صورت اختیار کر گئیں۔
یہ نمائش جسے پہلے لندن ، استنبول اور نیو یارک میں بھی پیش کیا جا چکا ہے، ریاضی کے ساتھ طب کے میدان میں بھی مسلمانوں کے کارناموں کو پیش کرتی ہے، جہاں آج سے ایک ہزار پہلے مسلمان ڈاکٹر آج کے زمانے کے جدید آلات استعمال کرتے رہے ہیں۔ماریس کولز نمائش میں آنے والوں کو اس حوالے سے معلومات فراہم کررہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ کو یہاں مختلف رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ اور جب آپ اس نمائش کو دیکھتے ہیں تو آپ کو یہاںمسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں اور ہندووں کا کام بھی ملے گا۔ ان میں ایک گرو ہ سابینز کےنام سے جانا جاتا تھاجو اب موجود نہیں لیکن اس زمانے میں یہ تمام لوگ ایک لمبے عرصے تک مل جل کر رہتے رہے ہیں۔
کچھ فنکار ان سائنسدانوں کے بھیس میں ان کی ایجادات کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں، جبکہ آرٹ اور آرکی ٹیکچر میں ہونے والی ترقی کو بھی نہایت مہارت سے دکھایا گیا ہے۔اور آج اس ترقی نے تحریر سکوائر پر احتجاج کو ایک نئی را ہ پر ڈال دیا ۔ مصر میں لوگوں نے موبائل فونز اور ڈیجیٹل کیمروں سے ہر چیز کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔
وہیل گھونم کہتے ہیں کہ آج تمام فاصلے سمٹ رہے ہیں، دنیا مسلسل رابطے میں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم ایک جیسے لوگ ہیں، ہمارے اندر فرق سے زیادہ مشترک باتیں ہیں۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں۔ اس دنیا میں ہر شخص کاایک کردار ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے۔
گھونم کا کہناہےکہ چاہے اس سے دنیا کے حالات بہترین نہ بھی ہوں لیکن دنیا شاید کچھ بہتر ہو جائے۔