ریمنڈ کرزوائل کی عمر اس وقت 63 سال ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر وہ خود کو 2050ء تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔
نیویارک میں رہنے والے کرز وائل ،سائنس دان اور کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں انہوں نے دنیا اورانسانیت کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہوئے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ کئی ایجادیں کرچکے ہیں جن میں الیکٹرانک کی بورڈ اور ایک ایسا آلہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے نابینا افراد ہر کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے وہ ایسی خوراک پر کام کررہے ہیں جس سے انسان لمبے عرصے تک جی سکے۔
کرزوائل کو ان کی ایجادات اور تصنیفات پر کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کے پاس 13 یونیورسٹیوں کی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں ہیں اور وہ فلسفہ، روحانیت اور سائنس سے متعلق کئی تنظیموں کے عہدے داروں میں شامل ہیں۔
کرزوائل کہتے ہیں کہ 21 ویں صدی کا انسان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع موجود ہے۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے پہلے شخص بننا چاہتے ہیں۔
کرزوائل کا کہناہے کہ میڈیکل شعبے میں ترقی سے انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہاہے ۔ اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 80 سال سے بڑھ چکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2050ء تک ایسے لوگ بڑی تعداد میں نظر آئیں گے جن کی عمریں سوسال سے زیادہ ہوں گی۔ ان کے اعضاء قوی اور ذہنی صلاحیتں برقرار ہوں گے اور وہ اپنے معمولات عام افراد کی طرح سرانجام دینے کے قابل ہوں گے۔
کرزوائل کہتے ہیں کہ 2050ء سے پہلے پہلے طبی شعبے میں حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں گے۔ علاج معالجے کا طریقہ کار یکسر بدل جائے گا۔ ٹیکنالوجی کے فروغ سےانسانی اعضا بنانا آسان ہوجائے گا ۔ مشینوں اور موٹر گاڑیوں کے کل پروزوں کی طرح انسان اپنے خراب اعضا کاعلاج کرانے کی بجائےانہیں باآسانی تبدیل کراسکے گا۔
مستقبل کانقشہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بیماریوں کے علاج کے لیے آج کل کی دواؤں کی بجائے نینو ٹیکنالوجی سے کام لیا جانے لگے گا اورجوہری سطح پر کام کرنے والی یہ ٹیکنالوجی جسم کے بیمار حصے میں پہنچ کر، کسی دوسرے حصے کو متاثر کیے بغیر اسے ٹھیک کردے گی۔
کرزوائل کہتے ہیں کہ مستقبل کے انسان کی غذا زیادہ تر وٹامنز اور معدنیات پر مشتمل ہوگی جو اسے طویل عرصےتک زندہ اور صحت مند رکھیں گے۔ وہ 2050ء تک خود کو زندہ اور صحت مند رکھنے کے لیے روزانہ 150 سے زیادہ وٹامن اور معدنیات استعمال کررہے ہیں۔ روزانہ پانی کے آٹھ کلاس اور سبز چائے کے دس کپ پیتے ہیں ۔ گوشت ، چکنائی اور چینی سے پرہیز ، باقاعدگی سے ورزش اور ہر مہینے اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں۔
تاہم کرزوائل ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے صرف میڈیکل کے شعبے کی ترقی پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کی سیڑھی پرایک قدم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اس زینے پر چند قدم اور چڑھ کر ہمیشہ کے لیے جی سکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ کیسے؟
زیادہ تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ تمام ترسائنسی ترقی کے باوجود انسانی جسم سے لامحدود عرصے تک کام نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ گوشت پوست سے بنا جسم آخر کس حد تک ساتھ دے سکتاہے؟ ڈیڑھ دوسوسال یا اس سے کچھ زیادہ اور پھر اس کے بعد۔۔۔؟
کرزوائل کا جواب بہت سادہ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ تب بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔
مگرکیسے۔۔۔؟
کرزوائل کا خیال ہے کہ اس کے بعد ٹیکنالوجی انسان کو زندہ رکھے گی۔ وہ کمپیوٹر میں انسان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کمپیوٹر کو انسان پر سبقت حاصل ہوجائے گی اور وہ انسانوں کے احکامات کی تکمیل کی بجائے خود سوچنے اور خود فیصلے کرنے لگے گا۔ وہ ذہانت میں انسان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔
کرزوائل اپنی ایک کتاب میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر کئی پیش گوئیاں کرچکے ہیں، جن میں سے کئی ایک حرف بحرف اور کئی ایک جزوی طورپر پوری ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں آئی بی ایم کے ایک کمپیوٹر واٹسن نے ذہانت کے مقابلے میں تمام انسانوں کو شکست دے کر77 ہزار ڈالر کا انعام جیتاہے۔
کرزوائل کا نظریہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ذہانت رکھنے والا کمپیوٹر انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنا غلام بنا لے، انسان کو اس کے اندر داخل ہوجانا چاہیے۔
بظاہر یہ نظریہ کسی سائنس فکشن فلم جیسا لگتا ہے ، مگرکرزوائل مستقبل میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کئی تجزیہ کار ان کے اس تصور کو روحانیت کے قریب تر سمجھتے ہیں ، جس کے مطابق جسم فنا ہوجاتا ہے مگر روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور بعض روحانی علوم کے ماہرین کے خیال میں روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوسکتی ہے۔ کرزوائل بھی منتقلی کی ہی بات کرتے ہیں۔
کرزوائل کے نظریے کی وضاحت میں ماہرین کا کہناہے کہ انسان کو اس کا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ کمپیوٹر کی طرح ایک مخصوص برقی نظام پر کام کرتا ہے۔ اور یہی نظام غالباً اس کی اصل روح ہے۔
کمپیوٹر کے برقی نظام کو، جو اس کے آپریٹنگ سسٹم ، یاداشت اور دوسری چند چیزوں پر مشتمل ہے، اسے دوسرے کمپیوٹر یا کسی ہارڈ ڈسک میں منتقل کیا جاسکتا ہے، اس کی نقل تیار کی جاسکتی ہے، اسے دوبارہ استعمال کیا جاسکتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ روبوٹ کی شکل کے ذہین کمپیوٹروں میں ایسی چپ نصب ہوگی جس پرانسانی دماغ کا برقی آپریٹنگ سسٹم اور اس کی یاداشت کو منتقل کرنا ممکن ہوجائے گا۔
لیکن وہ عام روبوٹ نہیں ہوں گے، بلکہ انسان ہوں گے مگرروبوٹ کی شکل میں۔۔۔غالباً رے کرزوائل نے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اسی سمت اشارہ کیا ہے۔
بہت ممکن ہے کہ 2050ء کا پہلی انسانی روبوٹ ریمنڈ کرزوائل ہی ہو۔