داعش کی قیادت کا دوسری بار خاتمہ، اب تنظیم کی قیادت کون کرے گا؟

جمعرات کو امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فورسز نے ایک آپریشن کے دوران داعش کے سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی مارے گئے ہیں۔ اس آپریشن کے دوران انہوں نے خود کش دھماکہ کیا جس سے وہ خود اور ان کے خاندان کے افراد ہلاک ہوئے۔

شام اور عراق کے ایک بڑے علاقے پر کچھ برس قبل تک شدت پسند تنظیم داعش( آئی ایس آئی ایس)کا قبضہ تھا البتہ گزشتہ دو برس سے یہ دہشت گرد تنظیم مشکلات کا شکار ہے کیوں کہ اس دوران اس کے دوسرے سربراہ کا خاتمہ ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق گزشتہ ہفتے شام اور عراق میں اس شدت پسند گروپ کی جانب سے حملے کیے گئے تھے جس سے یہ بات عیاں ہے کہ داعش سے اب بھی خطرات لاحق ہیں۔

جمعرات کو امریکہ نے اعلان کیا کہ امریکہ کی فورسز کے ایک آپریشن کے دوران اس گروپ کے سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی مارے گئے ہیں۔ اس آپریشن کے دوران انہوں نے خود کش دھماکہ کیا جس سےوہ خود اور ان کے خاندان کے افراد ہلاک ہوئے۔

دو برس قبل اکتوبر 2019 میں جب داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت ہوئی تھی تب تک داعش اپنے زیرِ کنٹرول علاقے کا ایک بڑا حصہ کھو چکی تھی البتہ اس کی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں۔

داعش کی قیادت

ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو داعش کا عراق میں اہم رہنما مانا جاتا تھا۔ وہ ایسے موقع پر داعش کے سربراہ بنے تھے جب گروپ کو امریکہ اور دوسری فورسز کی جانب سے شدید مزاحمت اور حملوں کا سامنا تھا۔

ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کی ہلاکت کے بعد اب داعش کی قیادت کون کرے گا؟ اس سوال کا جواب ابھی سامنے آنا باقی ہے کیوں کہ گروپ کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں کم ہی معلومات دستیاب ہیں۔

رائٹرز' کے مطابق اس کی وجہ گروپ کی جانب سے مرکزی خلافت کی بجائے مقامی سیلز کی طرز پر کارروائیاں کرنا ہے۔

SEE ALSO: شام: امریکی فورسز کےآپریشن کے دوران داعش کے سربراہ نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اکثر مقامی جنگجو عمومی زندگی کی جانب لوٹ گئے ہیں اور مستقبل میں امکانات کا انتظار کر رہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ چارلز لسٹر کے مطابق داعش کے میں ایک زمانے میں بڑی تعداد میں جنگجو شامل تھے۔ان کے بقول آزادانہ طور پر کارروائیاں کرنے والے سیلز میں اب بھی جنگجو موجود ہو سکتے ہیں البتہ ان کی تعداد کا تعین کرنا ممکن نہیں۔

داعش کی کارروائیاں

شام کے شہر الحسکہ میں دو ہفتے قبل ایک جیل پر حملہ کیا گیا تھا۔اس قید خانے میں داعش کے کئی جنگجو موجود تھے۔ اس گروپ کی جانب سے دو برس میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا ہے۔

اس علاقے کو کنٹرول کرنے والی کرد تنظیم ’سرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کے مطابق اس حملے کے دوران ان کے 40 اہلکار، جیل کے77 محافظ اورچار عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

’سرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کا کہنا ہے کہ اس دوران جیل میں موجود داعش کے حامی 374 قیدی اور حملہ آور بھی نشانہ بنے۔ قبل ازیں جنوری کے آخر میں داعش نے عراق کی فوج کے دیالا میں قائم اڈے پر حملہ کیا تھا جس میں 11 فوجی مارے گئے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

شام کے حراستی کیمپ پر داعش جنگجوؤں کی بیویوں کی حکمرانی

امریکہ کی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق گروپ کی جانب سے پچھلے تین ماہ میں عراق میں 182 اور شام میں 19 حملے کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تعداد پہلے سے اگرچہ کم ہے البتہ گروپ ابھی بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

داعش کے ٹھکانے کہاں ہیں؟

مبصرین کے مطابق شام میں 11 برس سے جاری خانہ جنگی اور 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد یہ خطہ تشدد، بے یقینی اور مذہبی فرقہ واریت کی وجہ سے داعش کے پنپنے کے لیے زرخیز ثابت ہوا۔

عراق میں مرکزی حکومت اور کرد مقامی حکومت کی عمل داری سے باہر علاقے داعش کے لیے پناہ گاہ بنے رہے ہیں۔

شام کے مشرقی صحرائی علاقے، جو حکومت کی عمل داری سے باہر ہیں، داعش کا مسکن رہے ہیں۔

اسی طرح شمال مشرقی علاقے میں شام کی کرد فورسز مؤثر اقدامات کرنے کے قابل نہیں ہیں جو اس گروپ کے لیے سودمند ثابت ہوا ہے۔

داعش کا مستقبل

مبصرین کے مطابق یہ گروپ پہلے بھی زیرِ زمین رہ کر کام کرتا رہا ہے۔ عراق میں فرقہ وارانہ تقسیم اور شام میں خانہ جنگی نے بھی داعش کو ابھرنے میں مدد دی۔

SEE ALSO: شام اور عراق کی جیلوں میں قید ہزاروں بچے کون ہیں؟

سال 2012 اور 2013 میں الحسکہ جیسے واقعات میں داعش نے جیلوں سے ہزاروں جنگجوؤں کو آزاد کرایا تھا۔

اس کے ساتھ ہی بھتہ وصولی اور ایسے ہی دیگر ذرائع سے داعش نے اس قدر سرمایہ جمع کیا کہ 2014 میں جب اس کے لیے حالات سازگار تھے، اس نے موصل اور عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس رپورٹ کے لیےکچھ مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا۔