سوات میں طالبان کی موجودگی کی اطلاعات گمراہ کن ہیں؛ پاکستان کی فوج کا دعویٰ

فائل فوٹو

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مسلح ارکان کی مبینہ موجودگی کی خبروں کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند روز میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی سوات میں مبینہ موجودگی کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔

بیان کے مطابق سوات اور دیر کے درمیان پہاڑوں پر چند مسلح افراد کی موجودگی پائی گئی جو کہ بظاہر اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے افغانستان سے چوری چھپے آئے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پہاڑوں میں ان کی محدود موجودگی اور نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کر لیے ہیں۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اگر ضرورت پڑی تو ان سے بھر پور طاقت سے نمٹا جائے گا۔

دوسری طرف ٹی ٹی پی نے دو دن قبل ایک بیان میں سوات کی تحصیل مٹہ میں اپنی تنظیم سے منسلک افراد کی سرگرمیوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ طالبان اسی ملک اور صوبے کے باشندے ہیں اور یہاں پر شرعی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔

گزشتہ ہفتے پیر کو مبینہ عسکریت پسندوں نے سوات کی تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر سمیت سیکیورٹی فورسز کے چار اہلکاروں کو جھڑپ کے بعد یرغمال بنا لیا تھا۔ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں جن میں واضح ہو رہا تھا کہ طالبان کی حراست میں موجود پولیس افسر زخمی حالت میں ہے۔

ان تمام یرغمال افراد کو طالبان کے بقول منگل کی صبح مذاکرات کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ تاہم ان افراد کی رہائی کے بعد ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں یرغمال بنائے جانے والوں میں دو افراد کے فوجی افسران ہونے کا دعویٰ کیا گیا تاہم اس حوالے سے حکام کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔

مقامی افراد اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب بھی بعض پہاڑی علاقوں میں مبینہ عسکریت پسند موجود ہیں۔

سوات کے ایک سینئر صحافی عیسیٰ خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کو کانجو کی فوجی چھاؤنی میں لگ بھگ 300 فوجی اہلکاروں کو منتقل کیا گیا ہے، جس کے بعد مختلف سرکاری حلقوں نے مبینہ عسکریت پسندوں کے سرحد پار افغانستان روانہ ہونے کا بتایا ہے۔

دوسری جانب ٹی ٹی پی کے مبینہ عسکریت پسندوں کی سوات اور دیگر علاقوں میں موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

سوات میں دہشت گردی کے خلاف مظاہرے میں تقریر کرنے پر غیرت خان یوسف زئی نامی ایک مقامی سیاسی کارکن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

جس احتجاج کی وجہ سے غیرت خان یوسف زئی پر مقدمہ درج کیا گیا، وہ احتجاج سوات میں طالبان کی دوبارہ آمد اور ان کے کارروائیوں کے خلاف منعقد کیا گیا تھا۔

اس احتجاج میں شریک مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات ایک مرتبہ پھر طالبان کے تاریک دور اور بدامنی کے لیے کسی طور پر بھی تیار نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر مقامی افراد کئی دن سے سوات میں ایک بار پھر مسلح افراد کی نقل حرکت کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ مقامی افراد ان عسکریت پسندوں کو ٹی ٹی پی سے منسلک طالبان قرار دے رہے ہیں۔