پاکستان میں شراب بنانے کی فیکٹری یا بروری کا تصور کئی لوگوں کے لیے شاید نامانوس ہو لیکن نہ صرف دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ہی ایسی ایک فیکٹری موجود ہے بلکہ اپنی ایک طویل تاریخ بھی رکھتی ہے۔
راولپنڈی میں جناح پارک کے قریب واقع مری بروری پاکستان میں شراب بنانے والی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔ پاکستان میں شراب نوشی سے متعلق قوانین اور مذہبی ممانعت کے سبب شراب پر بھی اشاروں کنایوں میں بات ہوتی ہے۔ شاعری میں اس کا تذکرہ ہوتو اس پر تشریح کے کئی پردے ڈالے جاتے ہیں۔ اسی طرح شہر کے بیچوں بیچ ہونے کے باجود اس قدیم فیکٹری سے متعلق کئی دل چسپ حقائق پر بھی اسرار کے پردے پڑے رہتے ہیں۔
قیام پاکستان کے 75 برس مکمل ہونے پروائس آف امریکہ کی جاری سیریز میں بہت آئیڈیاز کے ساتھ تقسیم سے قبل یہاں پائے جانے والے بڑے کارخانوں، کاروباری خاندانوں اور معاشی مراکز سے متعلق آئیڈیا زیرِبحث آئے تو اس گفتگو میں مری بروری کا ذکر بھی چل نکلا۔
یہ فیکٹری 120 برس پرانی ہے اور تقسیم سے قبل کی یادگاروں میں شامل ہے اس لیے فیصلہ ہوا کہ اس موقعے پر اس فیکٹری کی ایک جھلک اپنے قارئین اور ناظرین کو دکھانی چاہیے۔
بھنڈارا خاندان
مری بروری تین نسلوں سے بھنڈارا خاندان کی ملکیت ہے۔ اس خاندان کے اسفن یار بھنڈارا اس وقت بروری کے مالک ہیں۔ وہ خود بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اقلیتی نشست پر رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں اور ان سے پہلے ان کے والد ایم پی بھنڈارا بھی رکن قومی اسمبلی تھے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایم پی بھنڈارا پاکستان کے آئین پر عبور رکھنے والے پارلیمنٹرین کے طور پر جانے جاتے تھے۔ کئی ارکان پارلیمنٹ آئین کی شقوں کی تشریح اور رہنمائی کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔
اسفن یار بھنڈارا کے دادا پی ڈی بھنڈارا پاکستان بننے سے پہلے مری بروری سے منسلک تھے اور پاکستان آزاد ہونے سے قبل انہوں نے اس فیکٹری کے اکثریتی شئیر حاصل کررکھے تھے جو بعد میں نسل درنسل منتقل ہوتے رہے اور اس وقت اسفن یار بھنڈارا اس کاروبار کو چلا رہے ہیں۔
کئی ایکڑ پرپھیلی یہ فیکٹری راولپنڈی میں ہائی سیکیورٹی زون میں واقع ہے۔ آرمی ہاؤس کی عمارت یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ اس لیے فیکٹری تک جانے سے پہلے کئی سیکیورٹی چیک پوسٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ بروری کی انتظامیہ نے پہلے ہی سیکیورٹی کو ہمارے آنے کی اطلاع کردی تھی اس لیے ہمیں فیکٹری تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
جب قبضے کی کوشش ناکام ہوگئی
فیکٹری کے باہر بڑے بڑے پارکنگ لاٹس موجود ہیں جہاں ٹرک اور لوڈنگ کی گاڑیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔ ان میں خام مال کے ساتھ تیار شدہ مال لے جانے والی گاڑیاں بھی موجود رہتی ہیں۔
ہم جب مری بروری پہنچے تو اسفن یار بھنڈارا کو اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے ہمیں اس فیکٹری کی تاریخ،تیاری کے مراحل اور اپنے کاروبار سے متعلق تفصیل سے بتایا۔
دیگر تفصیلات کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک سیاست دان نے ان کے والد سے یہ فیکٹری زبردستی خریدنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے اور ان کے اس خاندانی ورثے کا تسلسل برقرار رہا۔
’فیکٹری کے اندر ریل گاڑی چلتی تھی‘
اسفن یار بھنڈارا کے پاس فیکٹری کی بہت سی نادر دستاویزات بھی ہیں جن میں سو سال سے پہلے انگریز دور کے دفتری لیجر اور رجسٹر موجود ہیں جن میں اس وقت فیکٹری کے حسابات لکھے جاتے تھے۔
فیکٹری کے اندر تک آنے والی ریل کی لائن اب ختم ہوچکی ہے۔ یہاں فیکٹری کے اوقات شروع اور ختم ہونے کے لیے اطلاعی گھنٹی موجود تھی جو اب گم ہوچکی۔ تاہم اسفن یار بھنڈارا ماضی کی ایسی تمام یادگاروں کو اب سنبھال کر رکھ رہے ہیں اور ماضی سے منسلک تمام یادگاروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
شراب بنانے والی اس فیکٹری میں بیش ترمشینری نئی ہے اور یورپی ممالک سے درآمد کی گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انگریز کے زمانہ کی یادگار کے طور پر کئی جگہ پرانی مشینری کے بٹن اور دیگر یادگاریں آج بھی نصب ہیں۔ یہ اس وقت کی یاد دلاتے ہیں جب عام مشینوں کی مدد سے شراب بنائی جاتی تھی۔
فیکٹری کی قدیم عمارت میں ایک دل چسپ بات یہ محسوس ہوئی کہ اس کی دیواروں کی موٹائی آج کی تعمیرات کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ عام طور پر بیرونی دیواریں زیادہ سے زیادہ نو انچ موٹائی کی ہوتی ہیں لیکن مری بروری میں یہ دو فٹ یعنی 24 انچ تک موٹی ہیں۔
مری بروری کے مالک اسفن یار بھنڈارا نے ہمارا یہ معما حل کیا اور بتایا کہ اس قدر موٹی دیوار سے گرمی سردی کا گزرممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے درجہ حرارت کو معتدل رکھنے کے لیے ان کی موٹائی زیادہ رکھی جاتی تھی۔ ایک دل چسپ بات یہ بھی تھی کہ دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک اس عمارت کی چھتیں اور زیادہ تر حصہ سلامت ہیں۔
مری بروری اوریوکرین جنگ
شراب بنانے کا سب اہم جز و، جو یا بارلے ہے۔ مری بروری میں بیرونِ ملک سے درآمد کی ہوئی جو بڑے پیمانے پر اسٹاک کی جاتی ہے۔ فی الحال یہاں یوکرین سے درآمد کی گئی جو موجود تھی۔ لیکن یوکرین پر روس کے حملے کے باعث مری بروری کو بھی بے یقینی کا سامنا ہے۔ جنگ طول پکڑتی ہے تو خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے شراب کی قیمت میں بھی مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
جو سے شراب بنانے سے پہلے اسے نم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص کمروں میں اور مخصوص درجۂ حرارت پر اس پر پانی کا ہلکا سا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد مشینوں کے ذریعے جو کو مسلسل ہلایا جاتا ہے۔ جو کو اچھی طرح اس عمل سے گزار کر اس سے بیئر یا شراب کشید کی جاتی ہے۔
مری بروری میں صرف شراب اور بیئر نہیں تیار ہوتی بلکہ اس فیکٹری میں جوسز اور نان الکوحلک مصنوعات کی بھی بڑی رینج ہے۔ اب بھی الکوحل کی تمام ورائٹی راول پنڈی میں تیار ہوتی ہے جب کہ جوسز کی بیش تر پروڈکشن ہری پور کے قریب حطار انڈسٹریل ایریا میں موجود فیکٹری میں ہوتی ہے۔
ملازمین کی تین نسلیں
اس فیکٹری میں ہزاروں ورکر ہیں جن میں سے بعض ملازمین ایسے ہیں جو یہاں کام کرنے والوں کی تیسری یا چوتھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فیکٹری سے ریٹائر ہونے والے ملازمین اپنے بچوں کو اپنی جگہ رکھوا دیتے ہیں اور کئی مرتبہ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہا ہے۔
فیکٹری میں ایک ملازم سے پوچھا کہ کیا کبھی شراب تیار کرنے والی فیکٹری میں کام کرنے پر دوستوں یا عزیز رشتے داروں نے کوئی اعتراض کیا ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم شراب بنا رہے ہیں، یہ بات ہر کوئی جانتا ہے۔ کام کے لیے آنے والا صرف کام کرتا ہے، وہ یہاں شراب پینے نہیں آتا۔ اب اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ یہ کام نہ کرے۔
البتہ اس کے باوجود ایک دو کیسز ایسے سامنے آئے جن میں بعض ملازمین نے الکوحل بنانے والے پلانٹس میں کام کرنے سے انکار کیا تو انہیں جوسز یا نان الکوحلک پروڈکشن میں منتقل کردیا گیا۔
یہاں ملازمین کی ایک باقاعدہ کالونی ہے جہاں ان کی رہائش کا بندوبست ہے اور کئی خاندان دہائیوں سے یہیں رہ رہے ہیں۔
’اسلامی جمہوریہ کی وجہ سے ایکسپورٹ کی اجازت نہیں‘
اسفن یار بھنڈارا نے بتایا کہ مری بروری ماضی میں بیرون ملک اپنی مصنوعات برآمد کرتی تھی اور دنیا بھر میں اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن 70 کی دہائی کے بعد ایکسپورٹ بند ہوگئی ہے۔
وہ بتاتے ہی کہ اس کی وجہ ملک کا نام ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اس لیے یہاں سے اگر شراب برآمد کی جائے تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوگی۔
تاہم ان کے جوسز اور دیگر نان الکوحلک مصنوعات برآمد ہورہے ہیں۔ اسفن یار بھنڈارا کو امید ہے کہ جب پاکستان میں شراب کی چینی کمپنیاں کام شروع کریں گی تو ان کے دباؤ پر ملنے والی اجازت سے وہ بھی اپنی الکوحلک مصنوعات باہر بھیج سکیں گے۔
’ اجازت کے بغیر ایک بوند فروخت نہیں کرسکتے‘
اسفن یار بھنڈارا کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور یہاں کے قوانین پابند ہیں۔ ہم الکوحلک مصنوعات بنا رہے ہیں تو بے شک ہمارا فائدہ ہی کیوں نہ ہو لیکن میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ شراب کی آزادانہ فروخت کی اجازت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور میں غیرمسلم ہوں، لیکن میں پاکستانی قوانین اور پاکستانی اسلامی معاشرے کو ماننے والا ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہاں موجود قوانین کے مطابق ہی اس کی فروخت کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ قوانین کے مطابق ہم اس فیکٹری سے ایک بوند بھی حکومت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتے۔ یہاں سے تمام شراب یہاں موجود ایکسائز کے عملے کی نگرانی میں حکومتِ پاکستان کی منظور شدہ وائن شاپس پر بھجوائی جاتی ہے جہاں پرمٹ پر اس کی فروخت کی جاتی ہے۔
اسفن یار بھنڈارا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہے۔یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ، ہڑتالوں، سخت گرمی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ پاکستان میں کاروبار سے مایوس بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نان الکوحلک مصنوعات پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور اب ہماری کئی مصنوعات امریکہ کو بھی برآمد ہورہی ہیں۔
’ایکسائز والے ہوں گے‘
فیکٹری سے باہر نکلے اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس جانے لگے تو ایک شخص نے گاڑی کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رکی تو قریب آکر گاڑی کی خالی نشستوں کی طرف دیکھا اور جانے کا اشارہ کیا۔
فیکٹری میں موجود انتظامیہ سے اس رویہ کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایکسائز والے ہوں گے۔ یہ اکثر ویسے ہی دیکھتے ہیں کہ کوئی کچھ لے کر تو نہیں جارہا۔
اچانک یاد آیا اسفن یاد بھنڈرارا نے بھی تو یہی بتایا تھا کہ کوئی ایک بوند بھی اپنی مرضی سے فروخت نہیں کرسکتا۔
ایکسائز والوں کی یہ فرض شناسی اچھی لگی لیکن بطور کرائم رپورٹر اسلام آباد کے پوش علاقوں میں کئی ریسٹورنٹس اور گھروں پر چھاپوں کی فوٹیج یاد آگئی۔ جن میں غیرقانونی طور پر درآمد شدہ شراب کی بوتلوں کے ڈھیر کئی بار دیکھے ہیں۔