|
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے شہر رفح میں پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں پناہ لینے والے دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی قابلِ عمل منصوبہ پیش نہیں کیا۔
بلنکن نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے سات ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد کے بارے میں بھی کوئی منصوبہ نہیں دیا۔
کئی ماہ قبل اسرائیل نے حماس کے خلاف حملوں سے بچنے کے لیے 13 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف جانے کا حکم دیا تھا۔
نقل مکانی کرنے والے ان افراد میں سے اب اسرائیل نے لگ بھگ تین لاکھ فلسطینیوں کو رفح کے شمال مغرب میں منتقل ہونے کا حکم دیا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے امریکی نشریاتی ادارے ’این بی سی‘ کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے تحفظ یا ان کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے کا اسرائیل کا کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلنکن نے کہا کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ غزہ میں اس جنگ کے ختم ہونے کے اگلے دن کیا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے اگر وہ رفح میں داخل ہو کر کارروائی کرتا بھی ہے، تب بھی حماس کے ہزاروں مسلح افراد باقی رہ جائیں گے۔
انہوں نے کیا کہ غزہ کے شمال میں جن علاقوں کو اسرائیل نے کلیئر کیا ہے اس علاقوں سمیت حتیٰ کہ خان یونس میں بھی حماس کی واپسی دیکھی گئی ہے۔
ان کے بقول اس صورتِ حال میں جب اسرائیل رفح میں حماس کے باقی چار بٹالین سے نمٹنے کے لیے داخل ہو رہا ہے۔ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی منصوبہ نہ ہونے کی صورت میں شدید نقصان اور مسئلہ حل نہ ہونے کا خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہ کر سکے۔
امریکہ نے، جو اسرائیل کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے، اسرائیل کو بارہا رفح میں مکمل زمینی حملے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ لیکن اسرائیلی فوج علاقے میں فضائی بمباری اور مزید محدود زمینی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی فوج کی شمالی غزہ میں پھر کارروائی، رفح سے انخلا کے لیے بھی دباؤ میں اضافہامریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو 227 کلوگرام وزنی اور 907 کلوگرام وزنی 3500 بموں کی کھیپ اس خدشے کے پیش نظر روک دی ہے کہ انہیں رفح پر حملے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے رفح پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا تو امریکہ اسرائیل کو کچھ جارحانہ ہتھیار بھیجنا بند کر دے گا۔
دریں اثنا اسرائیل کی حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات اور حماس کی تحویل میں موجود سو سے زائد یرغمالیوں کی رہائی ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ ان کا ملک اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا جب تک وہ غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک نہ دے۔
ان حالات کے پیشِ نظر بلنکن نے افراتفری سے خبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ممکنہ طور پر اس راستے پر ہے کہ اس کو شورش کا سامنا رہے گا جس میں بہت سے مسلح حماس کے جنگجو باقی رہ گئے ہوں گے یا اگر وہ انتشار سے بھرے ہوئے خلا کو چھوڑ دیتا ہے اور شاید حماس نے اسے بھر دیا ہو گا۔
SEE ALSO: غزہ کو "انسانی تباہی" کے انتہائی بڑے خطرے کا سامنا ہے: اقوام متحدہ کے سربراہبلنکن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل سے دیرپا نتیجہ حاصل کرنے اور غزہ اور خطے میں پائیدار سلامتی کے لیے ایک بہت بہتر طریقہ کے بارے میں بات کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے خاتمے کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ حماس یرغمالیوں کو چھوڑ دے۔ ہمیں ایک جنگ بندی ملے گی جسے ہم مزید دیرپا اور پائیدار حالات بنا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے بتایاکہ مختلف ٹیمیں بات چیت کا حصہ رہیں۔
اس طریقۂ کار کے نتائج کے بارے میں بلنکن نے کہا کہ یہ طریقہ یقینی بنانا ہو گا تا کہ غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ ہو سکے اور غزہ میں شہریوں کی بہتر حفاظت ہو سکے۔