|
ویب ڈیسک -- اسرائیلی فوج نے ممکنہ زمینی کارروائی کے لیے مشرقی رفح سے لوگوں کو انخلا کی ہدایت کی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر عربی میں جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج رفح میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے گی اور جو بھی اس علاقے میں ہے وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے گا۔
ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ اسرائیل رفح میں ایک 'محدود کارروائی' کی تیاری کر رہا ہے اور اس ضمن میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق مشرقی رفح سے لوگ خان یونس کے علاقے میں قائم شیلٹرز میں جا سکتے ہیں۔
یہ اعلان جنوبی اسرائیل میں حماس کے راکٹ حملے میں تین اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔ جب کہ اسرائیل کی بمباری میں غزہ کے جنوبی شہر رفح میں 19 ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔
غزہ جنگ میں یہ تازہ ترین ہلاکتیں اس وقت ہوئی ہیں جب امریکہ کی مدد سے ہونے والے جنگ بندی کے مذاکرات اتوار کو بھی تعطل کا شکار رہے۔
امریکی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنس مذاکرات کو پیش رفت کی جانب لے جانے کی کوششوں کے سلسلے میں خطے میں موجود ہیں۔
حماس کے عسکری گروپ نے اتوار کو کریم شالوم کی گزرگاہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس سے اسرائیلی حکام کے مطابق تین فوجیوں کی ہلاکت ہوئی۔
اسرائیل فوج کے مطابق رفح سے اسرائیل کی جانب 10 پروجیکٹائلز داغے گئے۔ حملے کے بعد اس گزرگاہ سے امدادی سامان کی غزہ میں ترسیل روک دی گئی ہے۔ تاہم دیگر گزرگاہیں امدادی سامان کے لیے کھلی ہیں۔
SEE ALSO: رفح حملے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا امکان، ہنگامی منصوبے ناکافی: اقوم متحدہ کے ادارےواضح رہے کہ سات ماہ سے جاری جنگ کے باعث مصر کی سرحد کے قریب واقع رفح شہر میں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
فلسطینی ڈاکٹروں نے بتایا کہ حماس کے حملے کے کچھ دیر بعد رفح میں ایک گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
اسرائیلی فوج نے جوابی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس لانچر کو نشانہ بنایا جس سے حماس کے میزائل فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ایک قریبی "فوجی ڈھانچے" کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ "حماس کا یہ حملہ اس کے دہشت گرد گروپ کی جانب سے انسانی سہولیات اور جگہوں کا منظم استحصال اور غزہ کی شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔"
حماس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
مذاکرات مسلسل تعطل کا شکار
ادھر اسرائیل اور حماس کے جنگ بندی مذاکرت تعطل کا شکار ہیں۔ اتوار کو کوئی پیش رفت نہ ہونے پر حماس کا وفد قیادت سے مشاورت کے لیے قاہرہ سے روانہ ہو گیا۔ حماس نے کہا کہ اس نے منگل کو قاہرہ واپسی کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس سے قبل حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ حماس ایک جامع جنگ بندی چاہتا ہے جس سے اسرائیلی 'جارحیت' کا خاتمہ ہو اور غزہ سے اسرائیل کے انخلا کی ضمانت ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ مستقل جنگ بندی کی صورت میں حماس سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی یرغمالوں کو بھی رہا کر دے گا۔
SEE ALSO: بلنکن کا غزہ سرحدی کراسنگ پر امداد کی ترسیل کا جائزہ
دوسری طرف اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کسی بھی ایسے جنگ بندی معاہدے کو قبول نہیں کرے گا جس میں غزہ کی پٹی میں حماس کا کنٹرول برقرار رہے اور یہ بدستور اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بنا رہے۔
واضح رہے کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قطر اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں اور اس دوران جنگ بندی کی مختلف تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ تاہم جنگ بندی سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو واضح کر چکے ہیں کہ چاہے جنگ بندی سے متعلق کوئی معاہدہ ہو یا نہ ہو رفح میں ہر صورت زمینی کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کا دعویٰ ہے کہ رفح میں حماس کے جنگجو چھپے ہوئے جن کا صفایا کیے بغیر اسرائیل کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔
امریکہ کا مذاکرات میں کردار
امریکہ مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی مذاکرات کی مسلسل حمایت کر رہا ہے۔
مصری حکام کے مطابق اسی سلسلے میں ڈائریکٹر سی آئی اے ولیم برنس جمعے کو قاہرہ پہنچے تھے۔ وہ پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم سے بھی ملاقات کریں گے۔
SEE ALSO: امریکی جامعات میں طلبہ کا احتجاج، گرفتاریوں کی تعداد 2100 سے تجاوزامریکہ نے اسرائیل پر واضح کر رکھا ہے کہ امریکہ رفح میں اسرائیل کی کسی بڑی کارروائی کا مخالف ہے۔
چند روز قبل اپنے دورۂ مشرقِ وسطیٰ کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ "ہمارے خیال کے مطابق حماس کے چیلنج سے نمٹنے کے اور بھی راستے ہیں جس کے لیے کسی بڑی فوجی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔"
امریکہ حماس پر بھی مسلسل یہ زور دے رہا ہے کہ اگر وہ غزہ کے عوام کے مصائب میں کمی چاہتا ہے تو اسے جنگ بندی معاہدے پر رضا مند ہو جانا چاہیے۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہیں)