اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینیوں سے امن معاہدے میں یہ شرط ہر گز شامل نہیں کی جا سکتی کہ اُن کا ملک 1967ء کی ”ناقابلِ دفاع“ سرحدوں کو تسلیم کرے۔
پیر کی شب واشنگٹن میں ایک بااثر امریکی یہودی تنظیم ’امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ خطے میں امن صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ فلسطینی اسرائیل کے وجود کو حق تسلیم کریں۔
اس سے قبل اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے اسی اسرائیل حامی لابیئنگ گروپ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے کسی بھی معاہدے کے حصول کی خاطر اسرائیل کو ”کٹھن فیصلے“ کرنا ہوں گے۔
امریکی صدر کے بقول ایسے سخت فیصلوں میں 1967ء کی حد بندیوں کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم مذکورہ تجویز کو ماضی میں بھی کئی بار رد کرچکے ہیں۔
پیر کی شب اپنے خطاب میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ان کے بقول مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کی اصل جڑ خطے کے مختلف ممالک کے عوام کی آزادی، ترقی اور بہتر طرزِ زندگی کے حصول کی خواہشات کا باہمی تصادم ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل میں موجود جمہوری نظام خطے کے دیگر ممالک کیے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ انھوں نے اس موقع پر اسرائیل اور امریکہ کے درمیان موجود تاریخی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بھی زور دیا۔
اس سے قبل پیر کی صبح اسرائیلی وزیر اعظم نے وائٹ ہاؤس میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی۔
منگل کے روز اسرائیلی وزیر اعظم امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ خطے کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے اسرائیلی پالیسی کی وضاحت کریں گے۔
نیتین یاہو نے گذشتہ روز کہا تھا کہ امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں وہ اس امر کی وضاحت کریں گے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کی صورت کیا ہونی چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ امن معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ کے تمام مسائل کا حل ممکن نہیں۔ ان کے بقول خطے میں دیرپا امن کے لیے ایک ایسی اصل جمہوریت کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں انتخابات، آزادی اظہارِ رائے اور خواتین، ہم جنس پرستوں اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔