اسرائیل کی جانب سے بھارت سے حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے مطالبے پر مبصرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ بھارت اسرائیل کی حمایت کے ساتھ ساتھ تنازعے کے دو ریاستی حل کا بھی حامی ہے۔
نئی دہلی میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا پہلے ہی حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔ لہذٰا اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت بھی اسے سرکاری طور پر دہشت گرد گروپ قرار دے۔
ان کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہم نے یہ بات کہی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں یہاں کے اہل کاروں سے پہلے بھی بات کی ہے۔ یہ کوئی دباؤ ڈالنے والی بات نہیں ہے۔
اُنہوں نے اسرائیل کے حماس مخالف آپریشن کی حمایت کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی حماس کے حملے کی پہلے مذمت کرنے والے رہنماؤں میں شامل رہے ہیں۔
ان کے بقول بھارت اسرائیل کی دہشت گردی مخالف کارروائی کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل کی یہ کارروائی مشرق وسطیٰ میں اس کی بقا کی جنگ ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ حماس دوبارہ ایسی کارروائی نہ کر سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کو باضابطہ طور پر دہشت گرد گروپ قرار دینا بھارت کے لیے آسان نہیں ہے۔ یہ بات اسرائیل اور فلسطینیوں کے قضیے میں اس کے مؤقف کے برعکس ہو گی۔
SEE ALSO: اسرائیل غزہ کے جنوبی حصوں پر حملے کیوں کررہا ہے؟'ایسی کسی پیش رفت کا امکان نہیں ہے'
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے خیال میں اس سلسلے میں کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اسرائیل میں حملے کے فوراً بعد اپنے بیان میں حملے کی مذمت تو کی تھی لیکن انھوں نے حماس کا نام نہیں لیا تھا۔
ان کے بقول اس کے اگلے ہی روز وزارتِ خارجہ نے اس معاملے میں بھارت کے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے پر عمل کرنے میں ہے اور بھارت پہلے کی طرح فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ بھارت نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں بھار ت کے ڈپٹی نمائندے آر رویندر نے اپنے بیان میں اس مؤقف کو دہرایا کہ اس مسئلے کا حل دو ملکوں کے قیام کے ساتھ ہو اور بھارت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
نمائندے نے یہ بھی کہا کہ بھارت فلسطینیوں کے لیے اب تک 38 ٹن امدادی اشیا روانہ کر چکا ہے۔ اس کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اسد مرزا کے خیال میں بھارت نے یوکرین اور روس کی طرح اس معاملے میں بھی متوازن راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ کسی کی طرف داری کرنے کے بجائے مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ حل کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'بھارت کی خارجہ پالیسی میں ابہام پیدا ہو گیا ہے'
سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کے خیال میں حملے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم مودی نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور کہا کہ بھارت اس کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔
دوسری جانب وزارتِ خارجہ نے بھارت کے مؤقف کو دہرایا اور حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ بھارت فلسطینی کاز کے ساتھ کھڑا ہے۔ پشپ رنجن کے بقول وزارتِ خارجہ کا یہ بیان عرب اور فلسطینیوں کے حامی ملکوں کے دباؤ میں دیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں بیانات کی وجہ سے اس معاملے میں بھارت کی خارجہ پالیسی میں ابہام پیدا ہو گیا۔
ان کے خیال میں بھارت کی اس گومگو کی پالیسی کی وجہ سے ہی اسرائیلی سفیر نے بھارت سے حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
اُن کے بقول اب بھارت کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ اگر وہ اس مطالبے پر توجہ نہیں دیتا تو مودی اور نیتن یاہو کی دوستی پر حرف آئے گا اور اگر وہ اس کی بات مان لیتا ہے تو فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے ملک خفا ہو جائیں گے۔
دریں اثنا گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں پرامن مظاہرے ہوئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے ایسے مظاہروں کی اجازت نہیں ہے۔ اسی لیے متعدد افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اقتدار والی ریاستوں میں نہیں بلکہ کانگریس اقتدار والی ریاستوں میں بھی فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف رپورٹس درج کی جا رہی ہیں۔
تجزیہ کار اس معاملے کو گھریلو سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بالخصوص بی جے پی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ ریاستی حکومتیں از خود کارروائی کر رہی ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کے اس رویے کے خلاف مرکزی حکومت کی جانب سے احکامات جاری ہوں گے۔
ان کے خیال میں بھارت میں اس قسم کے معاملات ہندو مسلم تفریق کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور دونوں فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے کوئی حکم نامہ جاری کر دے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو بی جے پی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا منقسم ہے۔ ایک طبقہ اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے تو دوسرا فلسطینیوں کی۔
اسد مرزا کے خیال میں بی جے پی حامی افراد کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے پوری غیر مسلم برادری اسرائیل کے ساتھ ہے جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے۔
ان کے مطابق کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جہاں بی جے پی کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس لیے بی جے پی رہنما اپنے ووٹرز کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے دہشت گردی کے حامی ہیں۔
پشپ رنجن کے خیال میں جو لوگ فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈال رہے ہیں وہ حماس کی نہیں بلکہ مارے جانے والے بے قصور فلسطینی شہریوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے دراصل حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نو اکتوبر کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ ہوا تھا جس پر پولیس نے چار طلبہ کے خلاف دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق علیگڑھ ہی میں ہندو تنظیم بجرنگ دل کی جانب سے اسرائیل حامی مظاہرہ ہوا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں تعینات ایک مسلم پولیس اہل کار کو فلسطینیوں کے حق میں سوشل میڈیا پوسٹ پر معطل کر دیا گیا۔ کانپور میں بھی ایک نوجوان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔
دہلی میں پولیس نے کئی تنظیموں کو فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔مہاراشٹرا اور کرناٹک میں بھی پولیس کی جانب سے ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ پولیس کا الزام ہے کہ ان مظاہروں سے ہندو مسلم دشمنی پیدا ہوتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حق میں بھی مختلف مقامات پر مارچ نکالے اور فلسطینیوں کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔