رسائی کے لنکس

'لیول پلیئنگ فیلڈ' نہ ملنے کی شکایات؛ کیا مسلم لیگ (ن) کو زیادہ 'اہمیت' مل رہی ہے؟


پاکستان میں بعض سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے 'لیول پلیئنگ' فیلڈ نہ ملنے کی شکایات کر رہی ہیں اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

نہ صرف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی یہ شکوہ کرنی والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو سیاسی منظر نامے سے باہر رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ بظاہر ایک جماعت کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔

ایسے میں ایک بار پھر 'سیاسی انجینئرنگ' کی اصطلاح کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو 2018 کے انتخابات میں بھی عام ہوئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کو میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق چلنا چاہیے'

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مرکزی رہنما ندیم افضل چن کہتے ہیں کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے. لہذا ان پر یہ ذمے داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روح کے مطابق آگے چلے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں نواز شریف اور ان کی جماعت کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے جواب میں وہ بھی 'پولیٹیکل انجینئرنگ' کرنے لگیں۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں دونوں سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ وہ نہ تو کسی فوجی حکومت میں شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج سے تعاون طلب کریں گی۔

ندیم افضل چن نے دعویٰ کیا کہ نگراں حکومت میں شامل وزرا، اور بیورو کریٹس کے تبادلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو نوازا جا رہا ہے۔

ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ فوری انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور انتظامیہ کو غیر جانب دار بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انتخابات پر سوالات اٹھیں گے جس کی ذمے داری الیکشن کمیشن، نگراں حکومت اور نواز شریف پر عائد ہو گی کیوں کہ اس سے لامحالہ مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہو گا۔

سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل کروائی جاتی ہیں جس کا سامنا 2018 میں مسلم لیگ (ن) نے بھی کیا۔

'کہیں نہ کہیں مفاہمت تو ہوئی ہے'

صحافی و تجزیہ نگار منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ جس انداز میں حکام نے نواز شریف کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا ہے اور جس طرح پنجاب حکومت نے ان کی سزا ختم کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مفاہمت یا ہم آہنگی ضرور ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کا براہ راست اثر عدالتوں پر پڑھے گا کیوں کہ بدقسمتی سے عدلیہ پر قانون کے بجائے سیاسی صورتِ حال کو دیکھ کر فیصلے کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی بات صرف تحریک انصاف نہیں کر رہی بلکہ پیپلزپارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی (مینگل) بھی یہی اعتراض اٹھا رہی ہیں۔

'لیول پلیئنگ فیلڈ کا تعین کرنا مشکل ہے'

تجزیہ نگار افتخار احمد کہتے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا تعین کرنا مشکل عمل ہے اور جو جماعتیں اس کا مطالبہ کر رہی ہیں انہیں واضح کرنا چاہیے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتحار احمد کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان عدالتی سزا کے نتیجے میں انتخابی عمل سے باہر ہو جاتے ہیں تو نواز شریف واحد قومی رہنما ہیں جو انتخابی عمل کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ لہذا ان کی واپسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر آصف کرمانی کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ہی ایسی باتیں کرنا شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا کہنا اور اس کی نشاندہی نہ کرنا سنجیدہ عمل نہیں ہے۔

آصف کرمانی کے بقول نواز شریف کو عدالت سے رعایت نہیں بلکہ تاخیر سے انصاف مل رہا ہے اور عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔

کیا اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو سپورٹ دے رہی ہے؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سے ان کے سیاسی مخالفین اس بات کو زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ان کی واپسی کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

نواز شریف ہفتے کو اپنی چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان پہنچے تھے۔

منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا اور ان کی جماعت یہ آواز اٹھاتی تھی کہ ان کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب یہی صورتِ حال پی ٹی آئی کے ساتھ درپیش ہے فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے جو کام پردے میں ہوا کرتے تھے اب کی بار کھلم کھلا ہو رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر لوگ یا تو جیلوں میں ہیں یا انہیں 'غائب' کرنے کے بعد ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرا دی گئی ہیں۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے بعد دیگر جماعتوں کو خدشہ ہے جو کہ درست بھی ہے کہ انہیں پنجاب میں زیادہ نشستیں نہیں مل سکیں گی، کیوں کہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں مقبولیت زیادہ ہے۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو واضح کرنا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کہاں پر مسلم لیگ (ن) کو مدد دے رہی ہے۔

سینیٹر آصف کرمانی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور میڈیا سب کو اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہنا چاہیے تب ہی ملک کے گھمبیر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

'نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00


فوج کے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے اعلان پر عمل ہو رہا ہے؟

گزشتہ سالوں میں فوج کی جانب سے بار بار اس بات کو دہرایا گیا کہ فوج نے بطور ادارہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں سیاست میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔

تاہم حالیہ عرصے میں عام انتخابات سے قبل دوبارہ سے پولیٹیکل انجینئرنگ کی بات کی جارہی ہے۔

فوج کی مداخلت پر بات کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ اداروں کو سامنے نہیں آنا چاہیے کیوں کہ اداروں کی مداخلت سے ملک کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض معاملات میں اداروں کی مداخلت ضروری ہو گئی ہے جیسے کہ اسمگلنگ جیسے معاملات کو حکومت اداروں کی مدد کے بغیر حل نہیں کرسکتی ہے۔

ان کے بقول آئندہ آنے والی حکومت کو ملک کے مسائل کے حل کے لیے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا تب ہی مسائل حل ہ وسکیں گے۔

منیزے جہانگیر نے کہا کہ فوج کی جانب سے سیاست میں مداخلت کے اعلان پر بالکل بھی عمل نہیں ہو رہا ہے۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ فوج کی مداخلت اس وقت تک سیاست میں جاری رہے گی جب تک سیاسی جماعتیں خود کو محلے کی سطح پر منظم نہیں کرتیں اور لاکھوں کارکنوں کو متحرک نہیں کر پاتیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG