امدادی بحری قافلے کے خلاف مہلک کارروائی پر اسرائیل کو شدید تنقید کا سامنا

حال ہی میں غزہ کے لیے امدادی اشیا اور خوراک لے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیل کے مہلک حملے کے خلاف مظاہروں سمیت ردعمل کا سلسلہ دنیا بھر میں سامنے آ رہا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جہاز پر سوار چند افراد نے چاقوں سے اس کے فوجیوں پر حملہ کیا تھا۔ تاہم اسرائیل کے یورپی اتحادی بھی امداد ی بحری بیڑے پر حملے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسرائیلی افواج کی اس کاروائی کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے مگر فلسطینی انتظامیہ اس سے مطمئن نہیں ہے۔اقوم متحدہ میں فلسطینی مبصر ریاض مانسو کا کہنا ہے کہ فلسطین، لبنان اور ترکی اس سے زیادہ سخت اقدامات دیکھنا چاہتے تھے۔

قافلے میں سوار زیادہ تر سماجی کارکنوں کا تعلق ترکی سے ہے جہاں اسرائیل کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان نے اسرائیلی فوج کے اس اقدام کو خونریزی قرار دیا ہے اور کہا کہ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ غیر انسانی ہے۔

دوسری طرف ترکی کے سماجی کارکن اسرائیل میں غیر قانونی حراست کے بعد وطن لوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ایک ترک سرگرم کارکن متلو تریاکی کا کہنا ہے کہ جب ہم عرشے پر آئے تو وہ ہیلی کاپٹرز اور فوجی کشتیوں سے نکلے اور ہم پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے ہمیں فوجی انداز میں وارنگ دی اور اپنی کشتیوں سے نکل کر ہمارے بحری جہاز پر آ گئے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں اور ہمارا واحد ہتھیار پانی تھا۔

مغربی کنارے پر کلاندیا چیک پوانٹ کے قریب ہونے والے ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس کا شل لگنے سے ایک 21 سالہ امریکی سماجی کارکن ایملی کی آنکھ ضائع ہوگئی۔ امن کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک اسرائیلی سماجی کارکن جس نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز مظاہرین پر نشانہ لے کر فائر کر رہی تھیں۔اس کا کہنا تھا کہ اس مظاہرے میں زیادہ سے زیادہ ایک سو لوگ ہوں گے اور جس وقت ایملی کو یہ شل لگا اس وقت وہاں زیادہ سے زیادہ تقریباً بیس لوگ ہوں گے۔

اسرائیلی اخباروں میں بھی حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اس پر نہیں کہ ان بیڑوں کو روکا گیابلکہ اس بحران پر جو اس دوران پیدا ہوا۔ ترکی کے لیے اسرائیل کے سابق سفیر اسے اسرائیلی کی شکست قرار دے رہے ہیں۔ایلن لیایل کا کہناہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ پورا آپریشن اسرائیل کی ناکامی ہے۔ یہ اسرائیل کی غلطی تھی۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے ہر کوئی اسرائیل میں جانتا تھا کہ اگر اس میں ہلاکتیں ہوئیں تو یہ اسرائیل کی ہار ہو گی۔ اور ہلاکتیں ہمارے سامنے ہیں۔ حماس جیت گئی اور بدقسمتی سے ہم ہار گئے۔

اسرائیل کو کسی حد تک سفارتی دباو کا سامنا ہے مگر اس کا کہناہے کہ اس نے سب کچھ اپنے تحفظ کی خاطر کیا۔

اسرائیل کے دوست ممالک کی طرف سے بھی غزہ کے متنازع محاسرے کو ختم کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ کچھ نے تو اس کی پالیسی پر سوالات بھی اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔