اسرائیل کی طرف سے ہفتہ کو غزہ میں زمینی کارروائی میں شدت دیکھنے میں آئی جب کہ حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ باری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تقریباً گیارہ روز سے جاری اس لڑائی میں اب تک تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کو اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے 65 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں کم ازکم 15 ایسی ہلاکتیں ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم تھی۔
ان دو دنوں میں غزہ سے 135 سے زائد راکٹ اسرائیلی علاقوں پر داغے گئے لیکن ان میں سے اکثر کو اسرائیلی میزائل شکن نظام سے ناکارہ بنا دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 17 فلسطینی مسلح افراد کو ہلاک اور ہتھیار ڈالنے والے 21 دیگر کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ’’کوئی بھی قوم اپنی سرحدوں میں راکٹ حملوں کو قبول نہیں کرتی۔‘‘
جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے نیتن یاہو کو فون پر یہ واضح کیا کہ زمینی کارروائیوں سے حماس کے عسکریت پسندوں کے زیر استعمال وہ غاریں تباہ ہوں گی جنہیں وہ اسرائیل پر حملے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
’’ہم پرامید ہیں کہ اسرائیل اس طریقے سے آگے بڑھے گا جس سے شہری ہلاکتیں کم سے کم ہوں اور ہم سب جنگ بندی کے اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے بھرپور کام کر رہے ہیں جو نومبر 2012 میں طے پایا تھا۔‘‘
جمعہ کو دیر گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں غزہ کے بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فلسطین کے سفیر ریاض منصور کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنگی جرائم اور فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر رون پروسر نے کہا کہ ان کے ملک کے پاس غزہ کے خلاف کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور ان کے بقول اس کا مقصد حماس کی "دہشت گردانہ صلاحیت" کو ختم کرنا ہے۔