عالمی بینک کے صدر نے منگل کے روز سعودی عرب میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس کو بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے عالمی معاشی ترقی کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسرائیل اور غزہ میں جو کچھ ہوا ہے، جب آپ آخر میں ان سب چیزوں کا جائزہ لیں گے تو میرا خیال ہے کہ آپ کو محسوس ہو گا کہ معاشی ترقی پر اس جنگ کے انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
عالمی بینک کے صدر اجے بنگا نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت ہم ایک انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں گھس کر کم از کم 1400 افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے ۔
جب کہ وہ جاتے ہوئے 222 لوگوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یرغمال افراد میں دوہری شہرت رکھنے والے لوگ اور غیرملکی بھی شامل تھے۔
دوسری جانب غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی کی جانب سے جوابی بمباری سے غزہ کی پٹی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے جن میں اکثریت عام شہریوں بچوں اور خواتین کی ہے۔
عالمی بینک کے صدر بنگا سعودی عرب میں‘‘ مستقبل میں سرمایہ کاری کے پیش منظر ‘‘ سے متعلق سالانہ فورم میں تقریر کررہے تھے۔
سرمایہ کاری کی اس کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ تین روزہ کانفرنس کے لیے چھ ہزار سے زیادہ مندوبین نے اپنا اندراج کرایا ہے جن میں عالمی بینکوں کے سربراہان، جنوبی کوریا، کینیا، اور روانڈا کے صدور بھی شامل ہیں۔
اسرائیل اور غزہ میں حالیہ غیر معمولی تشدد کے واقعات سعودی عرب کے ایک زیادہ مستحکم اور خوشحال مشرق وسطیٰ کے وژن کے برعکس ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خوشحالی کے اپنے اس وژن کو آگے بڑھانے کے لیے سعودی عرب نے اس سال ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کیے ہیں اور اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بات چیت کررہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبررساں ادارے اے ایف پی نے اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب یہ معاملہ تعطل میں پڑ گیا ہے۔
سعودی عرب نے حالیہ ہفتوں میں غزہ میں شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے موقف کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
یہ جنگ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب سعودی عرب کے حقیقی حکمران والی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے 2030 کے اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جس کا مقصد دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والے اپنے ملک کو معدنی ایندھن سے شفاف توانائی کی جانب منتقل کرنا ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ولی عہد وسیع تر علاقائی انتشار کے باوجود اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اپنے 2030 وژن کے ساتھ ساتھ سعودی دارلحکومت ریاض نے اس ہفتے ملک کے پہلے فیشن ویک اور ٹائسن فری اور فرانسس انگانو کے درمیان باکسنگ کے مقابلے کی بھی میزبانی کی۔ جب کہ پیر کے روز پرنس محمد بن سلمان نے اگلے موسم گرما میں پہلے ای سپورٹس ورلڈ کپ کے اپنے پروگرام کا اعلان کیا۔
(اس تحریر کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)