اسرائیلی میڈیا نے اتوار کو رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل حماس تنازع کے لیے جاری مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور مذاکرات کار ایک معاہدے کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔
معاہدے کے تحت کئی ہفتوں پر محیط جنگ بندی اور درجنوں اسرائیلی یرغمالی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ہفتے کو رات گئے اسرائیلی جنگی کابینہ نے اس معاہدے سے متعلق سوچ بچار کی ہے۔ لیکن ابھی تک سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
اسرائیل کے کئی میڈیا اداروں نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے دعوی کرتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ حکمتِ عملی کے طور پر اس معاہدے کی منظوری دی گئی ہے اور اسرائیل جلد ایک وفد قطر روانہ کرے گا۔
دوسری طرف حماس کا کہنا ہے کہ اسے امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے پیش کیے گئے لائحہ عمل میں شریک نہیں کیا گیا۔ لیکن اے پی کے مطابق یہ لائحہ عمل بڑی حد تک حماس کی اس سے پہلے پیش کی گئی شرائط کے مطابق ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ گزشتہ ہفتے قاہرہ کے دورے پر تھے۔
SEE ALSO: امریکی ایلچی اسرائیل میں: کیاجنگ بندی کی عالمی کوششیں نئی رفتار پکڑرہی ہیں؟علاوہ ازیں اسرائیل غزہ کے جنوب میں واقع رفح شہر میں عسکری حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جہاں غزہ کی 23 لاکھ آبادی کا نصف سے بھی زائد پناہ لیے ہوئے ہے۔
امدادی ادارے ایسی صورت میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع سے خبردار کر رہے ہیں جب کہ امریکہ اور اسرائیل کے دیگر حلیف اسے شہری ہلاکتوں سے پرہیز کی تلقین کر رہے ہیں۔
مصر کے ایک اعلی عہدے دار نے جو قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں شامل ہیں۔ ہفتے کے روز 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ اس معاہدے میں 40 عورتوں اور بوڑھے یرغمالی اور 300 کے قریب فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہو گی جن میں بچے، عورتیں اور بزرگ شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مصری عہدے دار نے بتایا کہ اس معاہدے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کے علاوہ اس دوران غزہ میں امدادی ٹرکوں کے داخلے کی اجازت بھی شامل ہے خصوصاً شمالی غزہ میں جہاں امدادی اداروں کے مطابق قحط کی صورت حال ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے آفس کی جانب سے وار کیبنٹ کی میٹنگ سے متعلق سوالات کے جواب نہیں دیے گئے۔ جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ تب تک تمام یرغمالی رہا نہیں کرے گا جب تک اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائیاں ختم نہیں کر دیتا اور اپنی فوج واپس نہیں بلاتا۔
اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔