اسرائیلیوں کے ایک گروپ نے، جِس میں سکیورٹی اداروں کےسابق سربراہ شامل ہیں، ایک نئے امن منصوبے کی تجویز پیش کی ہےجِس میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا ہے جِس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔
امن منصوبے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 1967ء میں قبضہ کیے گئے مغربی کنارے اور گولان ہائٹس کو خالی کردے، جِس کی بنیاد باہمی رضامندی سے زمینی خطے کے تبادلے پر مشتمل ہو۔ اِس میں ا سرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کو معاوضہ دے اور اُنھیں فلسطینی ریاست واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
یہ وہ چند اہم نکات ہیں جنھیں طویل عرصے سے اسرائیل فلسطین امن مذاکرات کے دوران اٹھایا گیا اور جِن پر گذشتہ سال بات چیت رُک گئی تھی۔
اِس منصوبے کو گذشتہ ہفتے جاری کیا گیا جِس میں 40سے زائد اسرائیلیوں کے دستخط ہیں اور جِس کا آغاز2002ء میں سعودی عرب نے کیا تھا۔
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اِس مجوزہ منصوبے کا خیرمقدم کرتی ہے۔ امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اِس سے دو ریاستی حل کی طرف ایک تعمیری پیش رفت حاصل ہوگی۔
منگل کو امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی آئی ہوئی لہر کے پس منظر میں یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے۔