غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ جمعے کے روز اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں 500 سے زائد فلسطینی اُس وقت زخمی ہوئے جب فلسطینی مظاہرین نے سرحدی باڑ پار کرنے کی کئی کوششوں کی جسے روکنے کے لیے اسرائیلی فوج نے گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ یہ باڑ اسرائیل کو فلسطین کے زیر انتظام غزہ کی پٹی سے علیحدہ کرتی ہے۔
تشدد کی یہ کارروائی اُس وقت بھڑک اٹھی جب ہزاروں فلسطینیوں نے سرحد کے ساتھ احتجاج کیا، جو لگاتار تیسرے ہفتے جاری رہا، اور ہر ہفتے مئی کے وسط تک جاری رہے گا۔ احتجاج کے نتیجے میں اب تک درجنوں ہلاک جب کہ ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین خیموں کے قریب اکٹھے ہوئے جو سرحدی باڑ سے کئی سو میٹر دور واقع ہیں۔ جب چھوٹے گروہوں نے اسرائیلی پرچموں اور ٹائروں کو نذر آتش کیا اور پتھر پھینکے، جس پر اسرائلی فوجیوں نے گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ 500 سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے جس میں سے 122 وہ افراد ہیں جنھیں گولیاں لگیں۔ زخمیوں مین 10 نرسیں اور طبی عملہ اور ساتھ ہی دو صحافی شامل ہیں، جب کہ اس سے قبل ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوا، جس کے بعد اب تک ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد 34 ہوگئی ہے۔
مظاہرین عشرہ پرانی ناکہ بندی کے خاتمے اور فلسطینی مہاجرین کی آج کے اسرائیل واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جہاں اُن کے آباؤ اجداد رہا کرتے تھے جب 1948 میں اسرائیل قائم ہوا اور اُنھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ اسرائیل کو یہ تشویش ہے کہ اسرائیل واپسی کا حق ماننے کا مقصد یہ ہوگا کہ یہودیوں کی اکثریت ختم ہوجائے گی۔
انسانی حقوق کے چند گروپوں کے خیال میں اسرائیل کی جانب سے گولی چلانا خلاف قانون ہے، چونکہ غیر مسلح مظاہرین کے خلاف مہلک طاقت استعمال نہیں ہو سکتی۔ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نےجمعے کے روز مطالبہ کیا کہ ’’غزہ میں فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انتہا درجے کی مہلک طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے‘‘۔
ادارے نے ہلاکتوں کے معاملے پر آزادنہ تفتیش کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اُس نے ’’بلوے کو منتشر کرنے کے تمام ذرائع آزمانے کے بعد ضابطوں کے مطابق فائرنگ کی‘‘۔