اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہونے حال ہی میں ہر ایسے گروپ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی تھی جو اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنے پر تیار ہو۔ لیکن فلسطینی صدر محمود عباس اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہیں ہونا چاہتے جب تک کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادیوں کی تعمیرنہیں روکی جاتی کیونکہ فلسطینی اس علاقے کو اپنی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ سمیت یورپی یونین کے بعض ملک اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کو ہی اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کی فلسطینی اقلیت کی صورت حال کے بارے میں ایک نئی کتاب کے مصنف کہتے ہیں کہ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اسرائیلی قوانین میں اصلاح کرنے سے بھی یہودیوں اور فلسطینیوں کے تنازعات کی کچھ بنیادی وجوہات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر ایلین پیلیگ اور ان کے ساتھی مصنف ڈاکٹر ڈو ویکس مین کہتےہیں کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کو تعلیم کے سلسلے میں آزادی دینے ، ان کے معاشی حالات میں بہتری لانے، سیاسی نظام میں ان کی نمائندگی بڑھانے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی مشترکہ ثقافت پر زور دینے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کی بہت سی باتوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتےہیں، کہ ان اقدامات کو اقلیتی گروپوں کےلیے رعایت کے طور پر پیش کرنا غلط ہو گا۔
اسرائیل میں بھی فلسطینی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کی مہم جاری ہے۔ B’Tselem نامی انسانی حقوق کےلیے ایک اسرائیلی ادارے نے حال ہی میں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کا پتھراؤ کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس کے غیر متوازن برتاؤ کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی مہم چلائی تھی۔ ایک دوسرا ادارہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کی مخالفت کر رہا ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں اقتصادی بحالی متاثر ہو رہی ہے۔ مغربی کنارے پر یہودی آبادیوں کی تعمیر کے مخالفین گزشتہ چند برسوں سے ان آبادیوں سے درآمد کیے گئے سامان کا بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں۔ جس کے جواب میں اسرائیل کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں یہودی آبادیوں میں کاروبار کرنے والوں کے تحفظ کا ایک قانون منظور کیا ہے۔
ڈاکٹر پیلیگ کا کہنا ہےکہ اگر اسرائیل کی فلسطینی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کےلیے اسرائیلی قوانین میں اصلاح کی جائے تو ممکن ہے کہ علاقے میں تعاون اور مفاہمت کا ایسا ماحول بھی پیدا ہو جائے جو مسئلہ فلسطین کا حل تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ لیکن وہ کہتےہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اسرائیل کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے سیاسی نظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ وہ ایک زیادہ آزاد خیال سیاسی ماحول کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔