ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کا شمار اب تک کی تاریخ کی سب سے مہلک اور تباہ کن مہموں میں سے ایک کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔
اس مہم کو شروع ہوئے دو ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے۔ تاہم، اس دوران کی جانے والی کارروائیاں 2012 اور 2016 کے درمیان شام کےشہر حلب، یوکرین کے ماریوپول یا پھر دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پر اتحادیوں کی بمباری سےکہیں زیادہ تباہ کن ہیں ۔ امریکی قیادت والے اتحاد کی اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش کے خلاف تین سالہ مہم کے مقابلے میں اس لڑائی میں اب تک زیادہ عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج اس بارے میں بہت کم وضاحت کرتی ہے کہ اس نے غزہ میں کس قسم کے بم اور توپ خانے کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جائے وقوعہ پر ملنے والے بم کے ٹکڑوں اور حملے کی فوٹیج کے جائزے سے ماہرین کو یقین ہے کہ محصورعلاقے پر گرائے گئے بموں کی اکثریت امریکی ساختہ ہے۔
SEE ALSO: غزہ کی جنگ میں شدت، اسرائیل کی شدید بمباری، حماس کی راکٹوں کی بوچھاڑعالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 20,000 کے قریب پہنچنے کے بعد جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ اسرائیل نے فوجی مہم جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے ۔ حماس کے7 اکتوبر کو سرحد پار سے کیے گئے حملے کے نتیجے میں اس جنگ کا آغاز ہوا جس میں اس نے 1140 افراد کو ہلاک کیا اور 240 کو یرغمال بنا لیا۔
بائیڈن انتظامیہ خاموشی سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کر رہی ہے۔ تاہم صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے عوامی طور پر تسلیم کیا کہ اسرائیل ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اس کا قانونی جواز کھو رہا ہے ۔
SEE ALSO: غزہ پر سلامتی کونسل کی قرارداد مؤخر، امریکہ حمایت کر سکتا ہے، بلنکنغزہ پر اسرائیل کی مہم کے بارے میں اب تک ملنے والی معلومات کا جائزہ
اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے سی یو این وائی گریجویٹ سینٹر سے وابستہ کوری شیر اور جیمن وان ڈین ہوک کے کوپرنیکس سنٹینل۔1 سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق شمالی غزہ میں تمام ڈھانچے کا دو تہائی سے زیادہ حصہ اور خان یونس کے جنوبی علاقے میں ایک چوتھائی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں ۔
اس جائزے کے مطابق اس تباہی میں دسیوں ہزار مکانات کے ساتھ ساتھ اسکول، ہسپتال، مساجد اور دکانیں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مبصرین نے کہا ہے کہ غزہ میں سکولوں کی تقریباً 70 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ کم از کم 56 تباہ شدہ اسکولوں کو بے گھر شہریوں کے لیے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مبصرین نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں 110 مساجد اور تین گرجا گھروں کو نقصان پہنچا۔دوسری جانب اسرائیل شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتا ہے جس نے بقول اس کے شہری انفراسٹرکچر میں عسکریت پسندوں کو رکھا ہوا تھا ۔ ان مقامات پر ان فلسطینیوں نے بھی پناہ لے رکھی ہے جو اسرائیلی انخلاء کے احکامات کے تحت اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
’’خلا سے جائزہ لیا جائے تو غزہ ایک مختلف رنگ میں دکھائی دیتا ہے ۔ اب اس کی ساخت ہی مختلف ہے‘‘ یہ کہنا ہے کوری شر کا جنہوں نے وان ڈین ہوک کے ساتھ حلب سے ماریوپول تک کئی جنگی علاقوں میں ہونے والی تباہی کا نقشہ بنانے کے لیے کام کیا ہے۔
تباہی نے تاریخی حیثیت کیسے اختیار کی ؟
غزہ میں تباہی دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے اتحادیوں کی بمباری سےہونے والی تباہی سے بھی آگے نکل گئی ہے۔
ایک امریکی فوجی مورخ رابرٹ پیپے نے کہا کہ انیس سو بیالیس سے 1945 کے درمیان اتحادیوں نے جرمنی کے 51 بڑے شہروں اور قصبوں پر حملہ کیا اور ان کے 40-50 فیصد شہری علاقوں کو تباہ کر دیا۔پیپے نے کہا کہ یہ جرمنی کی کل عمارتوں کا محض 10فیصد ہے جب کہ غزہ میں موجود عمارتوں میں 33 فیصد سے زیادہ تباہ ہو گئی ہیں کیونکہ غزہ کا کل رقبہ صرف 360 مربع کلومیٹر ہے اور یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔
SEE ALSO: پینٹاگان نے جنگ کے ایک ماہر سمیت مشیروں کو اسرائیل بھیج دیاامریکی قیادت والے اتحاد نے عراقی شہر موصل سے اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش کو نکالنے کے لیے 2017 میں جو حملے کیے، وہ کسی شہر پر انتہائی شدید حملوں میں سے سمجھے جاتے تھے ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیقات کے مطابق اس نو ماہ کی لڑائی میں تقریباً 10,000 شہری مارے گئے، جن میں سے ایک تہائی تعداداتحادیوں کی بمباری سے ہلاک ہوئی ۔
عراق میں 2014سے 2017 کے دوران داعش کو شکست دینے کی مہم کے دوران اتحاد نے ملک بھر میں تقریباً 15,000 حملے کیے۔’’ ائیر وارز‘‘ نامی لندن میں مقیم ایک آزاد گروپ حالیہ تنازعات پر نظر رکھتا ہےاور اس کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے کہا کہ اس نے غزہ میں 22,000 حملے کیے ہیں۔
کس قسم کے بم استعمال کیے جا رہے ہیں؟
اسرائیلی فوج نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حملوں میں کس نوعیت کا اسلحہ استعمال کر رہی ہے۔تاہم اسرائیلی فوج کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ ’’ ہر حملے کی تفصیلات کو قانونی مشیروں کے ذریعےطے کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی تعمیل کرتا ہے۔"ہم ہر ہدف کے لیے صحیح گولہ بارود کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اس سے غیر ضروری نقصان نہ پہنچے۔‘‘
SEE ALSO: صدر بائیڈن کے اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے ریمارکس پر وائٹ ہاؤس کی وضاحتہتھیاروں کے ماہرین سائٹ پر ملنے والے بموں کے ٹکڑوں، سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز کا تجزیہ کرکے کچھ نتائج اخذ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سامنے آنے والے نتائج اس فضائی جنگ کے مکمل دائرہ کار کی معمولی جھلک پیش کرتے ہیں ۔
ماہرین نے سپائس (سمارٹ، پرائسز امپیکٹ) یعنی مؤثرلاگت والے 900 کلوگرام بموں کے ٹکڑوں کی بھی نشاندہی کی ہے، جو ہدف کو زیادہ درست بنانے کے لیے جی پی ایس گائیڈنس سسٹم سے لیس ہیں۔
اسرائیلی فوج بغیر رہنمائی کے ’’ڈمب‘‘ بم گرا رہی ہے۔متعدد ماہرین نے جنگ کے آغاز پر اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی دو تصاویر کی طرف اشارہ کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑاکا طیاروں کو بغیر رہنمائی کے نظام کے بموں سے لیس کیا گیا تھا ۔ بغیر رہنمائی سے مراد یہ ہے کہ یہ بم مخصوص ہدف سے ہٹ کر کسی بھی مقام پر گر سکتے ہیں ۔
SEE ALSO: غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوکا ہے، اقوام متحدہکیا حالیہ حکمت عملی کام کر رہی ہے؟
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کےسامنے دو اہداف ہیں۔ ایک تو حماس کو تباہ کرنا اوردوسرے ان 129 یرغمالوں کو بازیاب کرانا جو ابھی تک حماس کے قبضے میں ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ کے گیارہ ہفتے بعد اس نے حماس کے بہت سے مقامات اور سینکڑوں سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے اور اندازے کے مطابق 30,000-40,000 حماس جنگجوؤں میں سے 7,000 کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مزید یرغمالوں کی رہائی کا واحد راستہ شدید فوجی دباؤ ہے۔
لیکن یرغمالی افراد کے کچھ خاندانوں کو خدشہ ہے کہ بمباری سے ان کے عزیز وں اور پیاروں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ گزشتہ ماہ ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا ہونے والے یرغمالی افراد نے بتایا تھا کہ ان کے اغوا کاروں نے انہیں اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ متعدد یرغمالی اسرائیلی بم حملوں میں ہلاک ہو گئے ۔ تاہم ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
’’یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی‘‘ تھنک ٹینک کے سربراہ ایفریم انبار نے کہا کہ تباہی کا دائرہ بہت وسیع ہے کیونکہ ’’حماس شہری آبادی کے اندر تک شامل ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیش قدمی کرنے والی اسرائیلی زمینی افواج کو حملوں سے بچانے کے لیےیہ ضروری ہے کہ حماس کی سرنگوں پر شدید بمباری کی جائے۔
وائس آف امریکہ