اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینز نے کہا ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ ایران میں ہونے والے ہر پراسرار واقعے کے پیچھے اسرائیل ہو۔
ان کا یہ بیان ایران میں نطنز میں جوہری تنصیب میں آگ لگنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس آتش زدگی پر بعض ایرانی حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ واقعہ سائبر تخریب کاری کا نتیجہ ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اسرائیل کی جانب سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل وہ واحد ملک جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ جوہری طاقت کا حامل ملک ہے۔
اسرائیل کے مطابق تہران ہمیشہ اس کی تباہی کی بات کرتا ہے۔
دوسری جانب ایران کی جانب سے ہمیشہ اس بات کی تردید کی جاتی ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جب کہ تہران کے مطابق اس کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔
جمعرات کو ایران کے زیر زمین جوہری پلانٹ نطنز میں ہونے والے حادثے کے متعلق ترجمان نے کہا تھا کہ اس واقعے میں پلانٹ محفوظ رہا جب کہ اس سے تابکاری خارج نہیں ہوئی۔
متاثرہ عمارت کے بارے کہا گیا تھا کہ وہ زمین کی سطح پر تعمیر کی گئی ایک صنعتی تنصیب تھی۔ وہ زیرِ زمین جوہری مواد کی افزودگی کے پلانٹ کا حصہ نہیں تھی۔
نطنز جوہری پلانٹ کے ترجمان بہروز کمالوندی کا کہنا تھا کہ عمارت کو نقصان پہنچا ہے اور مالی نقصان بھی ہوا ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اس واقعے سے ہمارے کام میں کوئی خلل نہیں پڑا اور جوہری پلانٹ میں معمول کے مطابق کام جاری رہا۔
آتشزدگی سے قبل کوئی ایسی اطلاح نہیں تھی کہ نطنز کے یورینیم انرچمنٹ سینٹر میں کوئی تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔
یہ پلانٹ دارالحکومت تہران سے جنوب میں 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک زیر زمین تنصیب ہے، جسے تقریباً 25 فٹ کی گہرائی میں کنکریٹ سے تعمیر کیا گیا ہے تاکہ وہ ہوائی حملوں سے محفوظ رہے۔
نطنز کو 'پائلٹ فیول انرچمنٹ پلانٹ' بھی کہا جاتا ہے۔ 2015 میں ہونے والے ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد سے یہ پلانٹ جوہری توانائی کے انسپکٹروں کی نگرانی میں ہے۔
اس حادثے کے بعد اسرائیل ریڈیو پر انٹرویو میں وزیرِ دفاع بینی گینز سے پوچھا گیا کہ ایران میں جوہری سائٹ پر ہونے والی آتش زدگی میں اسرائیل کا کوئی کردار ہے؟ جس پر انہوں نے کہا ہے کہ ایران میں ہونے والے ہر واقعے کا تعلق ہم سے ہونا ضروری نہیں ہے۔
جوہری تنصیبات کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا نظام انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ جب کہ ان کی حفاظت کے لیے انتہائی سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔
ایران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہمیشہ یہ جانتے ہوں گے کہ ان کو کیسے درست رکھنا ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے 'ارنا' نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آتش زدگی کے واقعے میں ممکنہ طور پر تخریب کاری کا عنصر شامل ہو سکتا ہے جو کہ اس کے دشمن ممالک امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کی گئی ہو۔
واضح رہے کہ 2010 میں 'اسٹکس نیٹ' نامی ایک کمپیوٹر وائرس سامنے آیا تھا جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل نے تیار کیا تھا تاکہ ایران میں نطنز کی جوہری سائٹ پر حملے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
گزشتہ ماہ اسرائیل کی کابینہ میں شامل ایک وزیر زئيف الكين نے دعویٰ کیا تھا کہ رواں سال اپریل میں ایران سے اسرائیل کے پانی کے نظام پر سائبر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ ایران نے 2015 میں چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے بعد جوہری سرگرمیاں روک دی تھیں۔ تاہم 2018 میں امریکہ اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا جس کے بعد تہران ایک بار پھر جوہری حوالے سے متحرک نظر آ رہا ہے۔