نیتن یاہو: "اسرائیل غزہ سے تمام روابط توڑ رہا ہے"،ہزاروں فلسطینی مزدوروں کی اسرائیل سے بے دخلی

غزہ پہنچنے والے فلسطینی ورکرز اپنے عزیزوں کے ساتھ۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کا ایک اور المیہ اس وقت سامنے آیا ہے اسرائیل نے ان ہزاروں فلسطینی کارکنوں اور مزدوروں کو ملک سے نکلنے کا حکم دیاجوسرائیل میں زراعت اور کنسٹرکشن میں اور گھروں میں کام کر رہے تھے۔ اب وہ افسردہ چہروں اور تھکے ہوئے قدموں سے قافلوں کی صورت میں چلتے ہوئے غزہ کے تباہ شدہ محصور علاقے میں لوٹ آئے ہیں۔

یہ وہ فلسطینی کارکن ہیں جنہیں سرائیلی حکومت نے ملک اور مقبوضہ مغربی کنارے میں کام کرنے کے لیے اٹھارہ ہزارورک پرمٹ جاری کیے تھے لیکن لڑائی شروع ہونے کے بعد اپنے اور اپنے خاندانوں کی معاشی بہتری کے لیے کام کرنے والے یہ لوگ بھی جنگ کا نشانہ بن گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصویروں اور ویڈیوز میں واپس آنے والے ان ورکرز نے کہا ہے کہ سات اکتوبر کوحماس کے حملے کے بعد انہیں حراست میں رکھا گیا اور مار پیٹ کی گئی۔

انہوں نے دکھایا کہ ان کی کلائیوں میں نمبر والے ٹیگ باندھے گئے ۔

وسطی غزہ کے مغازی پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن جمال اسماعیل نے بتایا، "ہم کم اجرت پر ان کی خدمت کرتے تھے۔ ان کے لیے کام کرتے تھے، گھروں میں، ریستورانوں میں، مارکیٹوں میں،اور اس خدمت گزاری کےباوجود ہماری اس طرح تذلیل کی گئی ہے۔"

سات اکتوبر کو عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر ہلاکت خیز حملے سے شروع ہونے والی لڑائی کے دوران تل ابیب نے اس پالیسی کوبدل دیا ہے جس کے تحت وہ علاقے میں استحکام قائم کرنے کے لیے غزہ کے لوگوں کو کچھ اقتصادی موقع فراہم کرتا تھا۔

وزیر اعطم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، اسرائیل غزہ سے تمام روابط توڑ رہاہے۔ اب غزہ سے کسی بھی فلسطینی کارکن کو آنے نہیں دیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے روز وہاں موجود تمام کارکنوں غزہ واپس بھیج دیا جائے گا۔

ایک فلسطینی مزدور خالد البہناسی، جو 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے دوران اسرائیل میں تھےکہا کہ اسرائیلی فورسز نے ان کے سر پر مارا پیٹا تھا، جب وہ 3 نومبر، 2023 کو جنوبی غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے واپس بھیجے جانے کے بعد رفح سرحد پر پہنچے تو ان کا استقبال کیا گیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان فلسطینی کارکنوں کو مصر اور غزہ کے درمیان کراسنگ رفح کے مشرق میں واقع کیریم شلوم کی راہداری سے غزہ واپس بھیجا گیا ہے۔

سات اکتوبر کے حماس کے اسرائیل کے جنوب مغربی علاقوں پر حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر جنگی جہازوں اور ٹینکوں سے بڑے پیمانے پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔

SEE ALSO: بلنکن:غزہ میں انسانی بحران کا خطرہ، ’انسانی ہمدردی کے وقفے‘ کی ضرورت ہے‘

اسرائیل نے ماضی میں غزہ کے باشندوں کو پرمٹس جاری کیے تھے کہ وہ اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جاکر زراعت اور تعمیر ات جیسے شعبوں میں کام کر سکیں۔

ان کارکنوں کو عام طور پر غزہ کے محصور علاقے میں کام کرنے کی اجرت کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ادا ئیگی کی جاتی تھی۔

تاہم، اسرائیل کی جوابی عسکری کارروائی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 9200 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً نصف بچے ہیں۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اب تک غزہ کے 23 لاکھ نفوس میں سے 14 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے روز غزہ کے کتنے لوگ اسرائیل میں تھے ۔ اس اچانک حملے میں 1400 افراد مارے گئے تھے ۔اس کے علاوہ حماس نے 240 کے قریب لوگوں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

SEE ALSO: 'غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے'، ترجمان یونیسیف

تاہم فلسطینی اتھارٹی کے ایک سینئر اہل کار کا کہنا ہے کہ غزہ سے تعلق رکھنے والے 4950 لوگ اسرائیل سے بھاگ کر مغربی کنارے چلے گئے جب کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل نے 5000 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا۔

تل ابیب کی ایک مٹھائی بنانے کی ایک کمپنی میں کام کرنے والے پچاس سالہ کارکن غزل بھاگ کر مغربی کنارے پہنچ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ اسرائیلی اہل کار فلسطینی کارکنوں کو حراست میں لے رہے تھے۔

"کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے"۔

خیال رہے کہ مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو محدود خود مختاری حاصل ہے کیونکہ یہ علاقہ ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے فلسطینیوں پر حملے اور دنیا کی تشویش

ان لوگوں کے لیے جو مغربی کنارے میں رہ گئے ہیں ناقص انٹرنیٹ اور فون کے رابطوں کا مطلب ہے کہ انہیں خبروں کا کم ہی علم ہوتا ہے جب کہ اسرائیل کی بمباری جاری ہے۔

تین بچوں کے والد ندال ابو جدیان نے، جو اسرائیل میں سڑکیں بچھانے کا کام کرتے تھے، بتایا کہ انہوں نے لڑائی شروع ہونے کے بعد مغربی کنارے کے شہر رملہ کی کمیونٹی سینٹر میں پناہ لی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عین اس وقت جب وہ فون پر اپنے چچا کی خیریت معلوم کر رہے تھے، ان کے چچا کو ایک بم کے حملے کی زد میں آگئے۔

"میں ان کی اور اپنے بچوں کی خیریت معلوم کررہا تھا لیکن وہ(چچا) ہلاک ہوگئے۔ میں نے دھماکہ سنا اور پھر لائن کٹ گئی۔"

( اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)